اساتزہ کی کمی کے باعث تعلیمی نظام بحران کا شکار، طلباء پریشان
پونچھ کے دیہی اسکول ویران، سرکاری دعویٰ محض کھوکھلے
پونچھ/17 مارچ/توصیف رضا گنائی
سرحدی ضلع پونچھ میں دیہی تعلیمی نظام شدید بحران کا شکار ہے، کیونکہ بڑی تعداد میں اساتذہ دفاتر اور شہری اسکولوں میں تعینات ہیں، جبکہ دیہی علاقوں کے سرکاری اسکول تدریسی عملے کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن جموں کی جانب سے بارہا اٹیچمنٹ ختم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، مگر عملی سطح پر ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، کئی اساتذہ نے شہری مراکز اور انتظامی دفاتر میں تعیناتی حاصل کر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں کے اسکول تدریسی عملے سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس صورتحال نے دیہی طلبہ کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں بھی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
منڈی کے ایک دور افتادہ گاؤں کے طالب علم نے شکایت کرتے ہوئے کہا، "ہمارے اسکول میں بمشکل کوئی استاد آتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں خود سے پڑھنا پڑتا ہے یا پھر کسی وزیٹنگ ٹیچر کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہم اچھے تعلیمی ماحول میں پڑھنے والے طلبہ کا کیسے مقابلہ کریں گے؟”
والدین اور مقامی افراد نے بھی اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب کہ کچھ اساتذہ شہری اسکولوں اور دفاتر میں آرام دہ تعیناتی کے مزے لے رہے ہیں، ہمارے بچے معیاری تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔اس بڑھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن جموں کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں میں متعدد احکامات جاری کیے گئے، جن میں تمام اٹیچ شدہ اساتذہ کو ان کے اصل اسکولوں میں واپس بھیجنے کی ہدایت دی گئی۔ تاہم، یہ احکامات زیادہ تر نظر انداز کر دیے گئے، جس سے محکمہ تعلیم کی شفافیت اور کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ایک سماجی کارکن نے کہا، "احکامات تو جاری کیے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کوئی نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ بااثر افراد دیہی علاقوں میں تعیناتی سے بچنے کے لیے اپنی سفارشات استعمال کر رہے ہیں، جبکہ غریب طلبہ کو اس کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اساتذہ کی کمی کے باعث طلبہ کے لیے نصاب مکمل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے اور اسکول چھوڑنے کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
کئی والدین اب اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل کرانے یا انہیں دوسرے اضلاع میں منتقل کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن یہ سب کے لیے ممکن نہیں۔ وہی تعلیمی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس مسئلے کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو دیہی علاقوں میں تعلیم کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے، جس سے شہری اور دیہی تعلیمی معیار کے درمیان فرق اور زیادہ بڑھ جائے گا۔
مقامی افراد اور تعلیمی کارکنان لیفٹیننٹ گورنر، وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر اور وزیر تعلیم سکینہ ایٹو سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر مداخلت کریں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ تمام اٹیچ شدہ اساتذہ کو ان کے اصل اسکولوں میں واپس بھیجا جائے اور جو افسران ان احکامات پر عمل درآمد میں ناکام رہے، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظامیہ عوامی دباؤ کے سامنے جھک کر اس تعلیمی بحران کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھاتی ہے یا دیہی طلبہ کو سرکاری غفلت کے سبب مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔