تحریر ؛—- : ریحانہ بانو
ڈوڈہ،جموں
یوں تو اس بار جموں و کشمیر کے موسم میں کافی بدلاؤ دیکھنے کو ملا۔ ہر سال اکتوبر نومبر کے مہینے میں ہی برف باری کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا اور مارچ تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔لیکن اس سال موسم نے ایک دم کروڑ بدل لی۔ بارشوں کا نظام بالکل تھم گیا۔ دسمبر کے آخری ہفتوں میں برف باری کا سلسلہ شروع ہوا۔ بہت سارے پہاڑی علاقوں میں بہت برف باری دیکھنے کو ملی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ میدانی علاقوں میں بھی برف باری دیکھنے کو ملی۔اگرچہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں کی بات کی جائے تو سب ڈویژن گندوں، جو پہاڑی علاقے ہیں ان میں کافی زیادہ برف باری دیکھنے کو ملی جبکہ اس مقابلے میں ضلع ڈوڈہ کے سب ڈویژن ٹھاٹری کے پہاڑی علاقوں میں اتنی زیادہ برف نہیں دیکھی گئی۔جس کے باعث نہ صرف مقامی سطح پر موسم میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی بلکہ فصلیں بھی متاثر ہوئیں۔جس کی وجہ سے کسانوں کو بھاڑی نقصان اٹھانا پڑا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے متاثرہ لوگوں کو کوئی معاوضہ فراہم کیا جائے گا؟اس سلسلے میں مقامی 60 سالہ غلام رسول بتاتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں ہر سال برف باری کے بعد کافی سارا نقصان ہوتا ہے۔ان علاقوں میں اکثر غریب طبقہ کے لوگ بستے ہیں جو پہاڑی علاقوں کی ٹھنڈ کو برداشت کر سکتے ہیں۔ہر سال جب برف گرتی ہے تو پیڑوں کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ یہ زمینداروں کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ایک پیڑ کی قیمت ایک لاکھ ہوتی ہے۔ اتنی قیمتی ہونے کے باوجود ملازمین اس پر نظر ثانی نہیں کرتے ہیں۔ہم نے کئی مرتبہ انتظامہ سے یہ بات کرنے کی کوشش کی کہ پہاڑی علاقوں میں برف باری کے بعد ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو تمام نقصانوں کا معائنہ کر سکے۔ لیکن ابھی تک اس پرکوئی بھی کام نہیں کیا گیا ہے۔ ہم امید کریں گے کہ انتظامیہ ان چیزوں پر نظر ثانی کرے تاکہ غریب کو اس کے نقصان کا معاوضہ مل سکے۔
زیادہ برف باری سے عام زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔اس سلسلے میں کالج میں پڑھنے والی ایک طلبہ راشدہ بتاتی ہیں کہ پہاڑی علاقوں کے لوگ بہت زیادہ پریشانی والی زندگی بسر کرتے ہیں۔ سردیوں کے ایام میں یہاں پر گاڑیوں کی آمد و رفت کے ساتھ ساتھ تمام ترکی پریشانیاں شروع ہو جاتی ہیں۔بجلی کی کٹوتی عروج پر ہوتی ہے۔وہیں اس دوران اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اسے ہسپتال پہنچانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔وہ کہتی ہے کہ اس دوران انتظامیہ کو چاہیے کہ سردیوں کے ایام کے لیے ہر علاقے میں ادویات پہلے ہی رکھ دی جائے جس سے لوگوں کو پریشانی اٹھانی نہ پڑے۔اس کے لئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مدد لی جا سکتی ہے۔اس علاقے میں بہت سارے پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں۔انہیں اگر اس چیز کی ذمہ داری دی جائے کہ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو وہ عیادت کے لیے دواساتھ لے کر ان کے پاس جائنگے۔اس سے نہ صرف ضرورت مندلوگوں کی مدد ہو جائے گی بلکہ انہیں کام بھی مل جائے گا۔کافی سارے لوگ ایسے ہیں جن کو یہ نالج ہے کہ کس درد میں کون سی دوا دینی چاہئے۔
اس سلسلے میں 32سالہ ایک مقامی جاوید کہتے ہیں قدرتی آفات سے ہر سال پہاڑی علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کے جانور مر جاتے ہیں۔ کسی کی گائے مر جاتی ہے تو کسی کا بیل مر جاتا ہے ۔کسی کا کچر مر جاتا ہے تو کسی کا گدھا مر جاتا ہے۔ یہ صرف جانور نہیں ہیں بلکہ ان غریبوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ لیکن ان چیزوں پر انتظامیہ دھیان نہیں دیتی ہے جبکہ پہاڑی علاقوں میں بیروزگاری عروج پر ہے۔ لوگ اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے انہی جانوروں کا سہارا لیتے ہیں۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان تمام نقصانات کا جائزہ لے کر لوگوں کو معاوضہ فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔
وہیں 52سالہ ایک خاتون کلثوم بیگم کہتی ہیں کہ پہاڑی علاقوں کو سردیاں شروع ہوتے ہی پانی جیسی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔بہت سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ سڑکیں برف باری کی وجہ سے گاڑیاں چلنے کی اجازت نہیں دیتی ہیں۔ایسے مشکل حالات میں پہاڑی علاقوں میں لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہوجاتا ہے کہ جب سردیوں کے ایام ختم ہو جاتے ہیں یا جب برف کا موسم ختم ہو جاتا ہے تو یہاں کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی ہے؟ جب حالات بہتر ہو جاتے ہیں تو یہاں پھر سے ترقی کے کام کیوں نہیں شروع کئے جاتے ہیں؟یہ ان علاقوں کے لوگوں کے ساتھ سراسر نا انصافی نہیں ہے تو پھر کیاہے؟وہ کہتی ہیں کہ برف ختم ہونے کے بعد کم سے کم پہاڑی علاقہ کے لوگوں کے دکھ درد کو سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ ان کی سردیاں کیسی گزری؟کیا کوئی بیمار تو نہیں ہوا؟ کیا کسی کے باغوں میں نقصان تو نہیں ہوا؟ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن ر اس اقبال بٹ کہتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں بیشتر وہ لوگ ہی رہتے ہیں جو مالی طور پر کمزور اور پسماندہ ہوتے ہیں کیونکہ جو لوگ مالی طور پر مضبوط ہوتے ہیں وہ ان علاقوں کو چھوڑ کر شہر کی جانب ہجرت کر جاتے ہیں۔ اس لیے ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پہاڑی علاقہ کے لوگوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں ایس ڈی ایم ٹھاٹری مسعود احمد بچھو انتظامہ کا موقف رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے متاثرکن لوگوں کی ہر ممکن مدد کی جاتی ہے۔ہماری کوشش رہتی ہے کہ پہاڑی علاقے میں ہوئے نقصان کا معاوضہ ان لوگوں کو جلدفراہم کی جائے۔اس کے لئے ہماری ٹیم ان علاقوں میں پہنچتی ہے اور لوگوں سے بات کر نقصان کا تخمینہ لگاتی ہے۔اس بار ہم مزید کوشش کر رہے ہیں جو ہی برف باری ختم ہوگی پہاڑی علاقوں میں کیمپ لگائے جائیں گے اور نقصانات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ میں نے اس سلسلے میں اعلی حکام کو لکھا ہے کہ نقصان کے معاوضے کی بھرپائی فوری طورپر کی جائے۔ وہیں ایم ایل اے ڈوڈا مہراج ملک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں میں نے تمام افسروں سے بات کی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ہوئے نقصان کا فوری طور جائزہ لیا جائے اور متاثرین کو جلدمعاوضہ فراہم کی جائے تاکہ ان کی زندگی پھر سے بہتر ہو سکے۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اس سلسلے میں بہتر قدم اٹھائیگی۔ وہیں مقامی سطح پر کام کرنے والی این جی او کو بھی اس سلسلے میں پہل کرنی چاہئے تاکہ متاثرین کو جلد راحت مل سکے۔ (چرخہ فیچرس)