کشمیری زبان کو پارلیمنٹ کے بروقت ترجمہ سروس میں شامل کرنے کی مانگ
جموں میں ادبی مرکز کمراز کی 45 ویں کشمیری کانفرنس منعقد
جموں/17 فروری/جمیل انصاری
ادبی مرکز کمراز جموں وکشمیر کے اہتمام اورجموں و کشمیر کلچرل اکیڈیمی کے اشتراک سے ایل سہگل ہال جموں میں 45 ویں کشمیری کانفرنس کا انعقاد کیا۔کانفرنس کا موضوع”جموں صوبے میں کشمیری زبان کی صورتحال: امکانات اور خدشات“تھا ۔کانفرنس میں جموں وکشمیر کے اطراف واکناف سے آئے ہوئے ادیبوں ،شاعروں ،قلمکاروں اور دانشورں نے شرکت کی۔ کانفرنس کئی نشستوں پر مشتمل رہی۔ کانفرنس کا آغاز ادبی مرکز کمراز کے نائب صدر جاوید اقبال ماوری نے کلام شیخ العالم اور کلام لل دید سے کیا،جبکہ رسمی طور کشمیری ژرار کانگڑی میں اسبند جلا کر کیا گیا۔افتتاحی نشست کی صدارت معروف شاعر وادیب پروفیسر شاد رمضان نے کی جبکہ ایوان صدارت میں معروف ڈوگری قلمکار پروفیسر للت گپتا،جموں وکشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لیگویجز کے ایڈیشنل سیکریٹری سنجیو رانا اور انجمنِ فروغ اردو جموں وکشمیر کی صدر فوزیہ مغل اور ادبی مرکزکمراز کے صدر محمد امین بٹ بھی موجود رہے۔خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے صدر مرکز محمد امین بٹ نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ادبی مرکزکمراز کشمیری زبان کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی ترقی وترویج کی خواہاں ہے انھوں نے کہا کہ ہندوستانی پارلیمنٹ کی جانب سے حال ہی میں ڈوگری اور دیگر چند ہندوستانی زبانوں کی Simultaous ٹرانسلیشن سسٹم میں شامل کرنے کا ہم جہاں خیر مقدم کرتے ہیں وہیں کشمیری زبان کو ایک تاریخی زبان ہونے کے باوجود نظرانداز کرنا دکھ اور افسوس کے مترادف ہے۔للت گپتا نے اپنی تقریر میں کہا کہ ادبی مرکزکمراز کے اس ایوان صدارت میں ایک ڈوگری قلمکار کی عزت افزائی کرنا اس بات کا غماز ہے کہ ادبی مرکز کمراز کا دامن کتنا وسیع العریض ہے جبکہ فوزیہ مغل نے اپنی تقریر میں کہا کہ انھیں وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی اس کہکشاں میں شرکت کرنے سے اپنائیت اور اپنے پن کا احساس جاگ رہا ہے۔اپنے صدارتی کلمات میں صدر نشست پروفیسر شاد رمضان نے کہا کہ ادبی مرکز کمراز کی کارکردگی ،محنت اور لگن کو دیکھ کر اس بات کا برملا اعتراف کیا جاسکتا ہے کہ کشمیری زبان زندہ تھی اور زندہ رہے گی اس نشست کی نظامت کے فرائض ادبی مرکز کمراز کے جنرل سیکریٹری شبنم تلگامی نے انجام دئے۔دوسری نشست کی صدارت سرکردہ کشمیری انشائیہ نگار،ادیب اور شاعر پروفیسر محمد زماں آزردہ نے کی۔اس نشست میں معروف ادیب اور قلمکار اسیر کشتواڑی،برج ناتھ بیتاب اور منشور بانہالی نے متذکرہ بالا عنوان کے حوالے سے اپنے مقالات پیش کئے۔اس نشست کی نظامت کے فرائض نوجوان قلمکارشاکر شفیع نے انجام دئے۔ تیسری نشست کی صدارت اردو اور پنجابی زبانوں کے معروف قلمکار جناب خالد حسین نے کی جبکہ ایوان صدارت میں پروفیسر ایاز رسول نازکی، سر کردہ ادیب اور براڈکاسٹر عبدالاحدفرہاد اور ڈاکٹر بہاراحمد ابن مشعل سلطانپوری موجود تھے ۔اس نشست میں دو کتابوں جن میں مشعل سلطانپوری کی اردوکتاب ”اردو میں ترقی پسند تحریک“ اور سید مسعود شاداب کا شعری مجموعہ ”کتھ سبزارن ہنز“ کی رسم رونمائی انجام دی گئی ۔ شاکر شفیع نے اردو میں ترقی پسند تحریک کتاب پر تبصرہ پیش کیا۔اس نشست میں سید اختر حسین منصور نے بھی کتھ سبزارن ہنز کتاب کے حوالے سے اپنے خیالات کا ظہار کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض ادبی مرکزکمراز کے سیکریٹری فاروق شاہین نے انجام دئیے۔کانفرنس کی آخری نشست میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔، جس کی صدارت معروف کشمیری شاعر اور ادیب پریم ناتھ شاد نے کی۔ ایوان صدارت میں ادبی مرکز کمراز کے بزرگ ممبر سید سعد الدین سعدی اور مرکز کے جنرل سیکرٹری شبنم تلگامی کے علاوہ جی آرحسرت گڈا بھی موجود رہے ۔اس نشست کی نظامت معروف نوجوان شاعر جناب ساگر سرفراز نے انجام دی۔مشاعرے میں جن شعراءکرام نے حصہ لیا اُن میںارشاد ماگامی، سید مسعود شاداب، ڈالی تکو آروَل،مقبول فایق، ساگر سرفراز، بشیر منگوال پوری،رشید روشن، گلفام بارجی، غلام حسن حقنواز،غلام نبی غافل،منشور بانہالی، ضمیر انصاری، عبدالاحد فرہاد،فوزیہ مغل ضیا،ظاہر بانہالی،غلام الدین بہار، برج ناتھ بیتاب،الیاس ارمان،پروفیسر شاد رمضان، پریم ناتھ شاد،سید سعدالدین سعدی،عادل اشرف لولابی شامل ہیں۔کانفرنس کے اختتام پر مرکز کے سرکردہ کارکن ظہور ہائیگامی نے تحریک شکرانہ پیش کیا۔۔