تحریر : ناہیدہ ملک( جموں کشمیر )
حدیث مبارکہ کے مطابق پیدائش کے فورا بعد یہ پر حکمت تعلیم فرمائی کہ بچے کے دائیں کان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تاکہ پیدائش کے ساتھ ہی تربیت کا سلسلہ شروع ہو اور بچے کے ذہن پر پہلا اثر توحید کا قائم ہو پھر فرمایا کہ بچے کا اچھا نام رکھا جائے، اس کی صاف صفائی کا خیال رکھا جائے اور وقت پے عقیقہ کیا جائے
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ الحمدللہ قدرتی نظام خوبصورت سچے اور ایمان پہ قائم ہیں
اب دیکھیے کہ ہم شکوک کے دائرے میں کب آتے ہیں۔ ہم کب اپنے طور طریقوں سے ہار جاتے ہیں، اپنے ہی اپ سے نفرت ہونے لگتی ہے اور انسان کے لہجے سے دل شکنی ہوتی ہے؟
جب ایک ماں بہت مشکلوں سے بہت تلخ حالات سے لڑ کر بچے کو جنم دیتی ہے تو نہ جانے کتنے دریا چڑھتے ہیں اتر جاتے ہیں۔۔ جس بچے کو وہ اخلاق، آداب زندگی کا درس دینا چاہتی ہے، اچھے اطوار حیات سے پر نور کرنا چاہتی ہے تو وہیں پہ کچھ ایسے مسائل سامنے اتے ہیں کہ جیسے ایک ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی ہے تو کچھ نا اہل شوہر اپنی بیوی پہ چلانا، گالی گلوچ کرنا، اپنی بے رخی، کم علمی، کم عقلی اور کم ظرفی کی بارش کرتا ہے، کوئی شراب کے نشے میں تو کوئی اپنی شرارت سے اپنی درندگی ظاہر کرتا ہے،
تو آپ بتائیں کہ ایسے حالات میں ماں کا دودھ ماں کی گود کیا اثر رکھے گی؟ اخر بچہ وہ ہر بات کانوں سے سنتا ہے, وہ ڈر اس کے اندر بیٹھ جاتا ہے اور دنیا میں آتے ہی بچہ بے رخی کا شکار ہو جاتا ہے، دنیا میں شیطانی دماغ جب حاوی ہو جائے تو درس کی کیفیت بھی بدل جاتی ہے اور گود بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔ نہ جانے کتنے سمجھوتے کرتے ہوئے، کتنی سختی سہتے ہوئے، ذلیل و خوار ہوتے ہوئے، بچے کو دودھ پلایا جاتا ہے اور وہ سارا ماحول بچے پر اثر کرتا ہے جس سے ایک مظلوم ماں اس معصوم بچے کو دودھ پلاتے ہوئے دو چار ہو رہی ہوتی ہے۔ یعنی کہ ماں نفسیاتی مریض ہو کر بچے کا پیٹ بھر رہی ہوتی ہے اور پریوار کی سبھی سختیاں بھی جھیل رہی ہوتی ہے پھر ایسے حالات میں ماں کی گود سے مبلغین، مقررین، مفسرین، مفکرین، سائنسدان یا فلسفییوں کی توقع کرنا بالکل بے سود ہے۔ شریعت کے تمام احکام بنیادی طور پر پانچ مقاصد پر مبنی ہوتے ہیں– دین کی حفاظت, جان کی حفاظت, نسل کی حفاظت, مال کی حفاظت اور عقل کی حفاظت۔ اور ہم لوگ انہی چیزوں سے محروم ہیں ۔۔۔۔اور ہم ایک نشہ خور ایک بیمار انسان اور ناکام انسان معاشرے کو تحفے میں دیتے ہیں کیونکہ ابتدا سے تربیت میں ہی نقص و کج رہ جاتا ہے۔
ایک طرف نوکری پہ جانے کا سلسلہ دوسری طرف ذہنی اذیت اور پھر بچے کی ذمہ داری آپ بتائیں انصاف کہاں ہے؟؟ ہماری نسل کی تربیت ہی گالی گلوچ سے شروع ہوتی ہے
اگر گالی گلوچ اتنی ضروری ہوتی تو یقیناً پیدائش کے وقت بچے کے ایک کان میں ماں کی گالی دی جاتی اور دوسرے کان میں بہن کی گالی دی جاتی اور پھر اسی طرح کے غلیظ ماحول میں انسان پلتا
گالی گلوچ عصر حاضر کے معاشرے میں بڑی برائی ہے جس سے متعلق غور و فکر بہت اہم مسائل میں سے ایک بڑا مسلہ ہے۔ پھر وہ بد قسمت اولاد ماضی کی ناقص تربیت اور دل خراش پرورش کی تشریح بن کے رہ جاتا ہے۔ بد زبانی اور دشنام طرازی محض دنیا کے سنگین گناہوں میں سے ایک گناہ ہی نہیں بلکہ نہائت ہی قابل مذمت جرائم میں سے ایک جرم بھی ہے اور اس کی عادت انسانیت کے نام پر دھبہ ہے جس کی فی الفور اصلاح کرنا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
بچے کی پرورش تبھی بہتر ہو سکتی ہے جب رشتوں میں عزت احترام سمجھداری پیار محبت ہو۔
لہذا والدین کا فرض ہے کہ بچوں کے سامنے حسن و اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو ہمارے ہاتھ میں کچے گھڑے کی طرح بچے ہوتے ہیں جنھیں جیسی شکل و صورت دیں گے ویسے ہی وہ مضبوط ہوں گے۔ کوشش کریں کہ نیک خواہشات کے ساتھ اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کو اچھی تعلیم و تربیت دی جائے، پیار محبت کا درس دیا جائے۔ جب تک اپ ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام قائم نہیں کریں گے تب تک بچے اس خوبصورت نعمت سے محروم رہیںگے بہترین تربیت سے بڑھ کر کوئی اور تحفہ نہیں ہے
ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ حق ادا کیا ہے اور ہمارے لیے ایک نمونہ پیش کیا تاکہ ہم بہترین سلوک کرنے والوں میں سے بنیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔