The Daily Urdu Newspaper of Jammu and Kashmir

ملک میں نفرت کی نہیں پیار محبت کی ضرورت

0

ہمارے ملک کی تاریخ ایسے شخصیات کے زریں اور انمول اقوال سے بھری پڑی ہوئی ہیں۔ جن کے اونچے خیالات اور افکار کی مہک کی وجہ سے ہی ہمارے ملک کو دنیا بھر میں پزیرائی حاصل ھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی تعلیمات سے نہ صرف سارے عالم کو متاثر کیا بلکہ اپنی خدمات سے انسانی زندگی اور اس کی بقا کے لیے جان تک قربان کر دی۔ان تاریخ ساز شخصیت میں مہاتما گاندھی کا نام سب سے عیاں اور روشن ہے، جن کی تعلیمات کا اثر پوری دنیا پر رہا ۔ آج بھی لوگ ان سے مستفید ہوتے ہیں ۔ گاندھی جی امن پسندی اور صلح جوئی کے قائل تھے۔ مہاتما گاندھی نے اپنے خیالات کا اظہار ايک مرتبہ کچھ اس انداز میں کیا کہ : ”ميں جو کچھ ديکھتا ہوں وہ يہ ہے کہ زندگی موت کی آغوش ميں، سچائی جھوٹ کے درميان اور روشنی اندھيرے کے بيچ ميں اپنا وجود قائم رکھتی ہے۔ اس سے ميں يہ نتيجہ نکالتا ہوں کہ خدا زندگی، سچائی اور نور ہے اور وہ محبت کی علامت ھے۔ انھیں روایات سے متاثر ہوکر عدم تشدد کے پیشوا کے طور پر پوری دنیا میں اپنی منفرد و ممتاز حیثیت رکھنےوالے گاندھی جی نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ مہاتما گاندھی کی تین بنیادی تعلیمات ہیں۔عدم تشدد یعنی اہنسا۔ سچائی پر مضبوطی سے جمے رہنا، ستیاگرہ اور سوراج۔ مگر گاندھی جی عدم تشدد کی بنیاد پر ہی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ یہی وہ واحد نظریہ اور تعلیم ہے جو گاندھی جی کی شناخت اور ہندوستان کی آزادی کی آواز بنا۔ عدم تشدد نے ہندوستانیوں کو آزادی کی وه نعمت عطا کی جس کے لیے وہ تڑپ رہے تھے اور نہ جانے کتنی قربانیاں پیش کر چکے تھے۔ مہاتما گاندھی کا عدم تشدد کے بارے میں خیال تھا۔ "عدم تشدد سے پیدا ہونے والی طاقت انسان کے ایجاد کردہ ہتھیاروں سے بدرجہا بہتر ہے۔” گاندھی پر تحقیقی کام کرنے والے امريکی مائيکل نيگلر کے آپ کے نظریات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ: ”اُن ميں وقت کے دھارے کے خلاف چلنے کی ہمت تھی۔ انہيں ايک پرانی، بھلا دی جانے والی دانشمندی کو اس طرح زندہ کرنے ميں کاميابی ہوئی کہ اُسے ہمارے جديد دور ميں بھی استعمال کيا جا سکتا تھا اور وہ سب کے ليے قابل فہم بھی تھی۔ اس طرح اُنہوں نے بنی نوع انسان کی دريافتوں ميں سے ايک بڑی دريافت کی، يعنی يہ کہ عدم تشدد ايک ايسا ہتھيار ہے، جو ہر شخص ہرصورتحال ميں استعمال ميں لا سکتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ ، نیلسن منڈیلا گاندھی کے اسی عدم تشدد کی بنیاد پر محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ اس نظریے کو پوری عالمی برادری ایک انمول پیغام تصوّر کرتی ہے۔ اس لئے بڑھتے تشدد کے خاتمے کے لئے مہاتما گاندھی کے اس پیام کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 15 جون 2007 ء کو’ عدم تشدد کا عالمی دن’ منانے کی قرارداد پیش کی گئی ، جو کہ 27 ؍جون 2007ء کو منظور کر تے ہوئے یہ اعلان کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کے بموجب اب ہر سال ہندوستان کے سپوت اور عدم تشدد کے پیامبر مہاتما گاندھی کے یوم پیدائیش پر عالمی سطح پر یوم عدم تشدد منا یا جائے گا ۔ ہندو مسلم اتحاد کو بھی مہاتما گاندھی ضروری قرار دیتے تھے ۔ اس سلسلے میں ان کا یہ خیال تھا کہ ‘اتحاد ایک طاقت ہے ، یہ صرف کتابی کہاوت نہیں بلکہ زندگی کا ایک اصول ہے، جو سب سے واضح طور پر ہندو مسلم اتحاد کے سوال پر صادق آتا ہے۔ اگر ہم میں پھوٹ ہوگی تو ہم تباہ ہو جایئں گے۔ اگر ہم ہندو مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر تیار رہیں گے تو کوئی تیسری طاقت آسانی سے ہندوستان کو غلام بنا لے گی۔ انکا مطلب ہندو مسلمان ہی نہیں بلکہ جو بھی ہندوستان کو اپنا وطن سمجھتا ھے ، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو .’انسانیت کے لئے جذبۂ ایثار وقربانی کا عنصر جس طرح سے ہماری زندگی سے غائب ہوتا جا رہا ہے ۔ اس ضمن میں مہاتما گاندھی کا خیال تھا کہ "جو قوم بے شمار قربانیاں پیش کرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتی ہے، وہ ترقی کی لا محدود بلندیوں پر پہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ جس قدر قربانی حقیقی ہوگی، اسی قدر کامیابی جلد ہوگی "۔ آج ہمارے ملک ہندوستان کو بھائی چارے، اتحاد اور محبت کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہی وہ موثر ہتھیار ہیں جن سے ھم ان لوگوں کو ہرا سکتے ہیں جوکہ ملک کے سیکولر اتحاد کو توڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.