The Daily Urdu Newspaper of Jammu and Kashmir

صحافت میں کثافت، زرد صحافت ملک و معاشرے کیلئے سم قاتل

تحریر۔۔۔۔۔ شاہد رشید (سینئر صحافی)

0

عہد حاضر میں اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن نے جس طرح ہر گھر میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اس سے میڈیا کی روز بروز بڑھتی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی مقبولیت، اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اقوام متحدہ نے صحافت اور آزادئ صحافت کے لئے ایک دن مخصوص کیا ہے۔
صحافت ، خواہ جس زبان کی ہو ، اس کی اہمیت اور افادیت کو ہر زمانے میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہماری سماجی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اوراقتصادی زندگی پر جس شدّت کے ساتھ اس کے اثرات مثبت اورمنفی دونوں طریقے سے مرتسم ہوتے ہیں ۔اس کا بہر حال اعتراف تو کرنا ہی ہوگا۔صحافت ترسیل وابلاغ کا اتنا مؤثراور طاقتور ذریعہ ہےاور واقعات حاضرہ کی معلومات بہم پہنچانے کااتنا بہتر وسیلہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت سے منسلک بھی رہے ، تاریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دئے، بڑے بڑے انقلابات کوجنم دیا، اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانے پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عائد کی گئیں۔ صحافت نے جیسے جیسے ترقی کی ، ویسے ویسے عوام کومتوجہ کرانے میں کامیاب بھی ہوتی گئی ۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔ لیکن جب سے صحافت پر سیاست حاوی ہونے لگی اور دنیا کے بڑے بڑے صنعت کار ، دولت مند اور بعض ممالک کی حکومتیں، صحافت کی بے پناہ طاقت کا اپنے مفاد میں استعمال کرنے لگیں ،تب ایسے حالات سے متاثر ہو کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1991 ء کے اپنے 26 ویں اجلاس میں منظور قرارداد کو نافذکرتے ہوئے 1993ء سے ہر سال 3 ؍ مئی کو عالمی سطح پر یوم آزادیٔ صحافت کے انعقاد کا فیصلہ کیا ۔ جس کے تحت صحافتی تحریروں پر پابندی لگانے، انھیں سنسر کرنے، جرمانہ عائد کرنے نیز صحافیوں کو زدوکوب کئے جانے ، ان پر جا ن لیوا حملہ کئے جانے ، انھیں اغوأ کئے جانے اور انھیں بے دردی سے قتل کئے جانے پر غور و فکر کرنے اور ان کے سدّباب کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایسے حالات سے نپٹنے ، حکمت عملی تیار کئے جانے اورحکومت وقت کو انتباہ کئے جانے پر زور دیا گیا ہے۔
یونیسکو نے ایسے مقامی اور عالمی سطح کے اداروں ، شعبوں ، این جی اوز وغیرہ کوصحافتی حفاظت ، آزادیٔ صحافت اور ترقی ٔ صحافت کے لئے مثبت اقدام اور اس ضمن میں غیرمعمومی خدمات کے لئے 1997 ء سے چودہ آزاد صحافیوں کی جیوری سمیت یونیسکو کے اسٹیٹ ممبران کی سفارش پر کولمبیا کے ایک اخبار El Espectador کے مقتول صحافی Guillermo cano isaza جو کہ 17 ؍دسمبر 1986ء کو کولمبیا کے ایک بہت بڑے اور دولت مندصنعت کار کے خلاف لکھنے کی پاداش میں ہلاک کر دیا گیا تھا ، ان کے نام پر ایک باوقار ایوارڈ کا فیصلہ کیا گیا ، تاکہ نہ صرف جمہوریت کا استحکام اور اس کا افادی پہلو کا دائرہ وسیع ہوبلکہ مفاد عامّہ کے لئے صحافت اور صحافتی خدمات پر معمور صحافیوں کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جائے کہ کس طرح نامساعد حالات میں عوامی مفاد کے لئے رائے عامّہ تیار کرتے ہیں ۔
اس کے لئے 1 مئی سے3 مئی 2011 ء میں امریکہ کے واشنگٹن شہر میں عالمی یوم آزادیٔ صحافت کا جلسہ بڑے پیمانہ پرمنعقدکیا گیا اور اس موقع پر اکیسویں صدی کے میڈیا اور اس کی بنیادی آزادی پر کئی ممالک کے مندوبین نے بحث و مباحثہ میں حصّہ لیا ۔
لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود دنیا کے بیشتر ممالک میں آزادیٔ صحافت پر پہرے بٹھائے گئے ہیں ، صحافیوں پر پُر تشدّد حملے اور قتل کے واقعات تیزی سے بڑھے ہیں ۔ امریکی فریڈم ہاؤس کی جانب سے جاری ایک جائزہ کے مطابق گزشتہ سال 70 ممالک میں صحافتی آزادی ، 61 ممالک میں جزوی طور پر اور 64 ممالک میں آزادیٔ صحافت پر مکمل پابندی رہی۔ سوویت یونین ، مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ میں صحافت کی آزادی سلب رہی ، جبکہ اسرائیل ، اٹلی اور ہانگ کانگ، ایران ، لیبیا، شمالی کوریا ، میانمار، روانڈا اور ترکماستان وغیرہ میں صحافت ،اپنی آزادی کے لئے کراہتی رہی۔ آزادیٔ صحافت یعنی Press freedom کے ضمن میں ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک میں ہمارا ملک 136 ویں پائدان پر آ گیا ہے۔
آزادیٔ صحافت کو جس طرح مختلف مما لک میں سلب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور آئے دن جس طرح صحافیوں کو یرغمال بنا کر اور پھر انھیں جس بے دردی سے ہلاک کیا جا رہا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے
ہم اس امر سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے الفاظ معاصر منظر نامے میں بے معنی اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں ۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ، لیکن قلم اور کیمرے کو جس طرح جبر و تشدّد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اورآزادیٔ صحافت اور اس کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ میڈیا پر ہی یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ میڈیا ،حکومت پر مثبت تنقید کے بجائے الزام تراشیاں کر رہا ہے، جس کے باعث جمہوریت کمزور پڑ رہی ہے اور حکومت غلط راہوں پر جانے پر مجبور ہو رہی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اور اس کے استحکام ، سیکولرزم کے فروغ اور سماج کا رخ موڑنے میں صحافت اور صحافیوں نے جو رول ادا کیا ہے ، اسے فرا موش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
دوسری جانب ہمارے ملک کے میڈیا کا یہ حال ہے کہ ان کے لئے تجوریوں کا مُنھ کھول دیا گیا ہے اور صحافت ، تجارت بن گئی ہے ۔یہ تاجر نما صحافی صحافت کے نام پر صحافت کے بجائے ایک خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ۔ صحافت کے سارے اصولوں کو ختم کرتے ہوئے حکومت کی ہر طرح کی مدح سرائی اور ستائش کرنا ہی ان کی نگاہ میں صحافت ہے۔اس طرح کی نام نہاد صحافت "صحافت ” کی ساری شاندار روایات اور خصوصیات کو ختم کر دینے کے در پئے ہے۔سنسنی خیز سرخیاں اور بریکنگ نیوز بنانے کے لئے بے بنیاد اور جھوٹی خبر بنانے سے بھی یہ نہیں چوکتے۔ غرض اس طرح کے صحافیوں کا مقصد صرف اور صرف اپنے لئے عیش و آرام کے سامان پیدا کرنا ہوتا ہے۔
اس طرح کے جانبدار میڈیا ادارے ملک میں منافرت، فرقہ واریت اور عدم رواداری پھیلانے میں اس قدر مصروف ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کو بھی اس بات کی نوٹس لینا پڑی۔ ایسی زرد صحافت کو فروغ دینے والوں کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ۔ جس سے یقینی طور پر پورے ملک کی شاندار صحافت کی روایت کو رسوا ہونا پڑ رہا ہے ۔ آزادٔی صحافت کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ صحافت کی آڑ میں ملک میں بد امنی پھیلائی جائے اور حکومت وقت یا کسی خاص پارٹی کے خاص ایجنڈے کو پورا کرنے کا وہ حصہ بنیں ۔

لیکن ان سب کے باوجود خوشی کا مقام ہے کہ آج بھی جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک کی صحافت، بیوپاریوں کے چنگل میں کراہ رہی ہے۔ پھر بھی کچھ واقعات کو چھوڑ کر غیر جانبدار صحافی حضرات اپنی پوری ذمّہ داری ، غیر جانب داری ، بے باکی ، بلند حوصلہ اور جرأت مندی کے ساتھ جمہوریت اور اس کے استحکام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدارو افکار کے لئے اپنے فرائض کو پوری ذمّہ داریوں کے ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔ ایسے جرأت مند اور بے باک صحافیوں کی موجودگی میں ہمیں یقین ہے کہ صحافت کی جو اعلیٰ قدریں ہیں ، وہ پامال نہیں ہونگیں اور ایسے کچھ صحافی جو وقتی منعفت کے لئے زرد صحافت میں لپٹ گئے ہیں۔ ان کے لئے ابھی بھی وقت ھے کہ وہ اپنا محاسبہ ضرور کریں اور مضبوط جمہوری عمارت کے اس مضبوط چوتھے ستون کو تیاہ ہونے سے بچائیں جس پر ملک کے عوام کو اپنے سے بھی زیادہ اعتبار ھے ورنہ تواریخ انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرینگی۔ کیونکہ قلم فروش صحافی اپنے جانبدارانہ اور غیر زمہ دارانہ روئے کی وجہ سے ملک میں سماج میں ایسا زہر گھولتا ھے جوکہ ملک و سماج کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کردیتا ھے۔ اس لئے کہا گیا ھے کہ قلم فروش صحافی سے جسم فروش طوائف بہتر ھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.