کشمیر کو پونچھ اور راجوری اضلاع سے ملانے والی مغل شاہراہ پر ٹریفک کب بحال ہو گی؟
ٹنل کی تعمیر کا منصوبہ ٹھنڈے بستے میں ، شاہراہ پر مواصلاتی نظام بھی دستیاب نہیں، انتظامیہ کے دعوے محض کھوکھلے
پونچھ|28 اپریل/توصیف رضا گنائی
مغل روڈ جو کہ ایک تاریخی شاہراہ ہے اور جو مغل بادشاہوں کی آمد ورفت کی وجہ سے مغل روڈ کہلائی اس روڈ کے منصوبے کو سب سے پہلے 1950 میں تجویز گیا گیا۔ اس سڑک کو مغل روڈ کا نام شیخ محمد عبد اللہ نے 1979 میں دیا۔ سال 2005 میں پی ڈی پی۔ کانگریس کی مخلوط سرکار نے اس منصوبے کو حتمی منظوری دی۔ اس پروجیکٹ کو 2007 میں پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا تاہم کچھ تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر ایک سال کی تاخیر ہو گئی۔2009 میں عمر عبد اللہ نے اسکا افتتاح کیا اور 2010 میں عام پبلک کے لئے مشروط اجازت دے دی گئی۔ سال 2012 میں ڈبل لین کا کام مکمل ہوا۔ مغل روڈ کی لمبائی بفلیاز تاشو پیاں 84 کلو میٹر ہے۔ اس روڈ کی تعمیر سے قبل جموں سرینگر قومی شاہراہ کے راستے پونچھ سے سرینگر 588 کلو میٹر کا راستہ لوگوں کو طے کرنا پڑتا تھا جو مغل شاہراہ کی بدولت 120 کلو میٹر سمٹ کر رہ گیا۔ اس سڑک کے مکمل ہونے پر پونچھ ۔ راجوری کے لوگوں کے دلوں میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب حالات بدلیں گے لیکن لوگوں کی امید امید ہی رہی۔ لوگوں کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ پروجیکٹ کے مکمل ہوتے ہی یہ غیر ضروری تعطل کا شکار رہے گی۔ ریاست جموں و کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں کو جموں خطے سے جوڑنے والا تاریخی مغل روڈ واحد راستہ ہے۔ یہ شاہراہ سرینگر – جموں قومی شاہراہ کے بعد ایک واحد شاہراہ ہے جو وادی کشمیر کو ملک کی دیگر ریاستوں سے جوڑتا ہے۔ لیکن خطہ پیر پنجال کے عوام کو ہر برس کی طرح اس بار بھی مغل شاہراہ کے کھلنے کا انتظار ہے۔ نومبر دسمبر 2022 میں شاہراہ بند ہوئی تھی جس کے بعد سے شاہراہ پر سے برف کے ہٹانے کا کام فروری 2023 کے دوسرے یا تیسرے ہفتے سے جاری ہونے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اپریل کے ختم ہونے تک بھی کوئی خبر نہیں کہ اس کو قابل آمد ورفت بنانے میں اور کتنا وقت لگے گا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ تاریخی مغل شاہراہ کے کھلنے کا پچھلے برسوں کی طرح اس بار بھی انتظار کر نا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا لگاتار خطہ کے لوگ پر زور مطالبہ کئے جار ہے ہیں لیکن حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ واضح رہے کہ جموں کے بر عکس وادی کشمیر کے مختلف سرکاری اسپتالوں کے اندر بہتر طبی سہولیات دستیاب ہونے اور سفر کم ہونے کی وجہ سے راجوری پونچھ کے عوام نازک مریضوں کو وادی لے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں شاہراہ پر ٹرانسپورٹ چلانے والا ڈرائیور طبقہ ، وہ طلبہ جو وادی کے مختلف کالجوں، اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور جو ملازم وہاں تعینات ہیں ان کے لئے براستہ جموں سرینگر طویل مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔ یہ سبھی لوگ اور عام شہری ہر روز شاہراہ کو کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ سرینگر لیہ سڑک سے اگر اتنے کم عرصے میں برف ہٹا کر اسے بحال کیا جا سکتا ہے تو تاریخی مغل شاہ کو کیوں نہیں کیا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر اتنی بڑی کیا وجہ ہے کہ شاہراہ کو نہیں کھولا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ مغل روڈ جو مارچ کے پہلے ہفتے میں کھلنا تھا اب بھی بند ہے اور لوگوں کو اس سڑک پر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے جو پیر پنجال کے علاقے کو وادی کشمیر سے ملاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکڑوں لوگ صحت کی جانچ، تعلیم، سیاحت، تجارت اور دیگر مقاصد کے لئے اس شاہراہ کا سفر کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ” حکام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے تاخیری عمل سے
سینکڑوں زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ عوام نے میڈیا کو بتایا کہ راجوری پونچھ کا طبی نظام زیادہ تر قریب ہونے کی وجہ سے وادی کشمیر سے جڑا ہوا ہے کیونکہ بہت سے مریضوں کو صورہ میڈیکل انسٹیچیوٹ میں خصوصی علاج و معالجہ کے لیے جانا ہوتا ہے، انکی دقعت دور کرنے کے لئے مذکورہ شاہراہ کا سارا سال کھلا رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خطہ کی عوام نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر سے مانگ کرتے ہوئے کہا کہ شاہراہ کی بحالی کیلئے متعلقہ حکام کو جلد از جلد ہدایت جاری کی جائیں۔