از قلمِ۔ شاہ زبیر
زگی پورہ
ادب انسان کی روح کی آواز ہے، اور شاعری اس آواز کا سب سے لطیف اور پُراثر اظہار۔ جب یہ آواز ایک عورت کے دل سے نکلتی ہے تو وہ صرف شعر نہیں ہوتا، وہ ایک تہذیبی بیان، ایک فکری احتجاج اور ایک روحانی پیغام بن جاتا ہے۔ ایسے وقت میں جب عورت کی آواز کو دبانے کی کوششیں ہو رہی ہوں، کچھ خواتین اپنی قلمی روشنی سے تاریکیوں کو چیر دیتی ہیں۔ انہی روشن چراغوں میں ایک نام گاش روحی کا بھی ہے۔
گاش روحی: لفظوں کی ایک خاموش روشنی
گاش روحی کا تعارف ایک شاعرہ کی حیثیت سے ہو یا ایک رہنما کی، ان کی ذات دونوں پہلوؤں سے مکمل ہے۔ ان سے میری ملاقات کچھ مہینے قبل ہوئی، اور اس مختصر عرصے میں انہوں نے میرے شعری شعور کو ایک نئی سمت دی۔ وہ سادگی کی پیکر، نرمی کی علامت اور فکری عظمت کی نمائندہ ہیں۔ ان کی شخصیت میں وہ خاموشی ہے جو چیخے بغیر بھی دلوں کو ہلا دیتی ہے۔
ان کی شاعری صرف جذبات کی تشفی نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ ہے۔ وہ قاری کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ خود سے سوال کرے، زندگی کو محسوس کرے، اور لفظوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر روحانی سفر پر نکلے۔
عورت اور ادب: ایک تاریخ، ایک جدوجہد
اردو ادب میں عورت کا کردار کبھی صرف "موضوع” رہا اور کبھی "تخلیق کار” کے روپ میں ابھرا۔ ایک طویل عرصے تک عورت کو صرف شاعروں کی محبوبہ یا مظلوم صنف کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن جب عورت نے خود قلم اٹھایا تو اس نے وہ دنیا دکھائی جسے مردوں نے یا تو دیکھا نہیں یا بیان کرنے کی ہمت نہ کی۔
خدیجہ مستور، عصمت چغتائی، قرةالعین حیدر، پروین شاکر، کشور ناہید، اور فہمیدہ ریاض جیسی خواتین نے اردو ادب کو نہ صرف نئی جہتیں دیں بلکہ عورت کو اس کی اپنی آواز بھی دی۔ ان کے بعد آج کی نسل کی شاعرائیں، جیسے گاش روحی، اس تسلسل کو نہایت باوقار طریقے سے آگے بڑھا رہی ہیں۔
گاش روحی: عورت کی آواز، عورت کی بصیرت
گاش روحی کی شاعری میں عورت مظلوم نہیں بلکہ باخبر، حساس اور بیدار کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ وہ عورت کو صرف صنف نہیں، بلکہ ایک مکمل فکر مانتی ہیں — جو تخلیق بھی کر سکتی ہے، اور انقلاب بھی لا سکتی ہے۔ ان کی شاعری میں عورت کا درد بھی ہے، لیکن وہ صرف چیخ نہیں، ایک فکری روشنی بن کر ابھرتا ہے۔
ان کا اندازِ بیان نرم ہے، لیکن اس میں ایک داخلی طاقت پوشیدہ ہوتی ہے۔ وہ طنز سے زیادہ احساس کا راستہ اختیار کرتی ہیں، اور قاری کو جھنجھوڑنے کی بجائے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔
خواتین شاعرات کے چیلنجز
آج بھی عورت کا لکھنا، خاص طور پر شاعری میں، کئی سماجی نظریات سے ٹکراتا ہے۔ انہیں اکثر "جذباتی”، "غیر سنجیدہ”، یا "رومان پرست” کہہ کر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ لیکن گاش روحی جیسی شاعرات ان دقیانوسی تصورات کو اپنی خاموش فکری روشنی سے توڑ رہی ہیں۔ وہ یہ ثابت کر رہی ہیں کہ عورت کی شاعری صرف حسن و عشق کی تشریح نہیں، بلکہ عقل، روحانیت، درد، اور شعور کی ترجمان بھی ہے۔
گاش روحی اور ان کی تربیت کا انداز
گاش روحی نے مجھے ایک شاگرد اور چھوٹے بھائی کے طور پر قبول کیا — یہ ان کی عاجزی اور محبت کی دلیل ہے۔ وہ تربیت سخت الفاظ سے نہیں، بلکہ نرم اشاروں، ہمدرد جملوں اور فکری سوالات سے کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں:
"شاعری لفظوں کا کھیل نہیں، ایک روحانی ذمہ داری ہے۔”
ان کے ایسے جملے میرے ذہن میں ایک شعلے کی مانند جلتے رہتے ہیں — روشنی دیتے ہوئے، راہ دکھاتے ہوئے۔
ایک خاتون شاعرہ کی موجودگی کا سماجی اثر
جب کوئی عورت اپنی شاعری سے لوگوں کے دلوں کو چھوتی ہے، تو وہ صرف ادب نہیں، معاشرے کی سوچ بھی بدلتی ہے۔ گاش روحی جیسے نام ان لڑکیوں کے لیے مثال بنتے ہیں جو لکھنا چاہتی ہیں، لیکن ڈرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سچ لکھنا ممکن ہے، عزت کے ساتھ، وقار کے ساتھ۔
ان کا کلام محبت، درد، روحانیت اور شعور کی حسین آمیزش ہے۔ وہ نہ انتہا پسندی کی قائل ہیں، نہ بے باکی کی آڑ میں ادب کی پامالی کی۔ ان کا اسلوب باوقار بھی ہے، پراثر بھی۔
نتیجہ: ایک روشن مثال
گاش روحی نہ صرف ایک شاعرہ ہیں، بلکہ آج کی شعری دنیا کی ایک روشن مثال ہیں۔ وہ اپنی ذات سے، اپنی شاعری سے، اور اپنی فکر سے یہ پیغام دیتی ہیں کہ عورت کا قلم بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا مرد کا، بلکہ بعض مواقع پر زیادہ بیدار، زیادہ حساس، اور زیادہ معتبر۔
ان کے لیے میرے دل میں بے حد عزت ہے، کیونکہ وہ صرف اچھی شاعرہ نہیں، بلکہ ایک اچھی انسان، ایک مہربان استاد، اور ایک فکری راہنما بھی ہیں۔
ادب میں ایسی خواتین کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہیں — وہ معاشرے کی خاموش، مگر مضبوط بنیادیں ہوتی ہیں۔
تبصرے بند ہیں.