سپریم کورٹ کا اردو زبان کو لیکر تاریخی فیصلہ، اردو بھارتی تہزیب کی عظیم علامت
اردو کی عزت بحال، ہندوستانی تنوع کی جیت
نئی دہلی/16 اپریل/این ایس آر
سپریم کورٹ نے 14 اپریل 2025ء کو ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے مہاراشٹرا کے پاتور میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو نہ صرف درست قرار دیا بلکہ اسے بھارتی تہذیب کی عظیم علامت کے طور پر سراہا، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بینچ نے اس مقدمے (مسز ورشا تائی بنام ریاست مہاراشٹرا) میں زبان، تہذیب، اور بھائی چارے کے بارے میں گہری بصیرت پیش کی، جو ہندوستانی عدالتی تاریخ میں ایک سنہری باب کی طرح درج ہوگا.
” مقدمے کی تفصیل: اردو کا دفاع، تعصب کی نفی”
یہ مقدمہ پاتور ٹاؤن کی سابق کونسلر ورشا تائی سنجے باگاڑے کی جانب سے دائر کردہ درخواست سے شروع ہوا، جنہوں نے میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو چیلنج کیا تھا، ان کا دعویٰ تھا کہ مہاراشٹرا لوکل اتھارٹیز (سرکاری زبانیں) ایکٹ 2022 کے تحت صرف مراٹھی زبان کا استعمال جائز ہے، لیکن سپریم کورٹ نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو مذکورہ قانون اور نہ ہی کوئی دوسری قانونی شق اردو کے استعمال پر پابندی عائد کرتی ہے۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین ہند کی آٹھویں شیڈول میں شامل مراٹھی اور اردو دونوں زبانوں کو برابر کی حیثیت حاصل ہے، عدالت نے زور دیا کہ سائن بورڈ پر اردو کا استعمال مقامی لوگوں کی سہولت اور رابطے کے لیے ہے، نہ کہ کسی سیاسی یا مذہبی ایجنڈے کا حصہ.
*اردو کی جڑیں: ہندوستانی تہذیب کا آئینہ*
عدالت نے اپنے فیصلے میں اردو زبان کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کی سرزمین پر جنم لینے والی ایک ہند آریائی زبان ہے، جو صدیوں کے ثقافتی امتزاج سے پروان چڑھی، عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ نوآبادیاتی طاقتوں نے ہندی اور اردو کے درمیان مصنوعی تقسیم پیدا کی، ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں سے جوڑ دیا۔ اس تقسیم نے زبانوں کو مذہبی رنگ میں رنگ دیا، جو بھارتی وحدت اور تنوع کے جذبے کے منافی ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا:
> "یہ موقع اردو کے عروج و زوال پر تفصیلی بحث کا نہیں، لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں کا امتزاج انتہا پسندوں کے رویے کے باعث متاثر ہوا۔ ہندی زیادہ سنسکرت زدہ اور اردو زیادہ فارسی زدہ ہو گئی۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے اس لسانی تقسیم کو مذہب کی بنیاد پر مزید گہرا کیا۔ ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا، جو حقیقت سے افسوسناک انحراف ہے۔”
عدالت نے واضح کیا کہ *اردو کوئی "غیر ملکی” زبان نہیں بلکہ اس کی جڑیں ہندوستانی سرزمین میں پیوست ہیں، یہ مختلف ثقافتوں کے باہمی رابطے سے وجود میں آئی اور وقت کے ساتھ شاعری، ادب، اور تہذیب کی ایک اعلیٰ زبان بن گئی۔ بڑے بڑے شاعروں نے اسے اپنایا اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا…*
*زبان رابطے کا پل، تقسیم کی دیوار نہیں*
سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ زبان کا بنیادی مقصد رابطہ ہے، نہ کہ لوگوں کو تقسیم کرنا، اگر پاتور کے مقامی لوگ اردو سمجھتے ہیں، تو سائن بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ اردو کا استعمال نہ صرف جائز ہے بلکہ عوامی سہولت کے لیے ضروری بھی ہے۔ عدالت نے کہا کہ میونسپل کونسل نے 1956 سے اردو کا استعمال کیا ہے اور مقامی آبادی اسے بخوبی سمجھتی ہے۔
عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ورشا تائی کا اعتراض قانونی طور پر درست نہیں تھا، کیونکہ سائن بورڈ کے بارے میں فیصلہ چیف آفیسر کا اختیار ہے، نہ کہ کسی کونسلر کا۔ اس سے قبل بامبے ہائی کورٹ نے بھی 2021 میں اسی عرضی کو مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا…
اردو اور بھارتی عدالتی نظام
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن نے اپنے فیصلے میں ایک خوبصورت مشاہدہ پیش کیا کہ اردو زبان بھارتی عدالتی نظام کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے کہا:
> "عدالتوں کی زبان میں اردو الفاظ کا گہرا اثر ہے، چاہے وہ دیوانی قانون ہو یا فوجداری۔ ‘عدالت’، ‘حلف نامہ’، ‘پیشی’ جیسے الفاظ اردو کے اثر کی واضح مثالیں ہیں۔”
یہ ریمارکس اس بات کی گواہی ہیں کہ اردو نہ صرف روزمرہ زندگی بلکہ بھارت کے قانونی اور تہذیبی ڈھانچے میں بھی رچی بسی ہے..
*گنگا جمنی تہذیب کی جیت*
عدالت نے اردو کو گنگا جمنی تہذیب کی ایک روشن مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ شمالی اور وسطی بھارت کی مشترکہ ثقافتی روح کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس نے زور دیا کہ زبان مذہب کی نہیں، بلکہ قوم، خطے، اور عوام کی ہوتی ہے۔ عدالت نے کہا:
> "اپنے تصورات واضح کریں۔ زبان مذہب نہیں ہے، نہ ہی زبان مذہب کی نمائندگی کرتی ہے۔ زبان تہذیب ہے، زبان ایک قوم اور اس کے افراد کی تمدنی ترقی کی کسوٹی ہے۔”
یہ فیصلہ صرف اردو کے بارے میں نہیں بلکہ ہندوستان کے لسانی تنوع اور بھائی چارے کی روح کو سمجھنے کے بارے میں ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہمیں اپنی زبانوں سے متعلق تعصبات اور غلط فہمیوں کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔
عدالت نے اپنے فیصلے کا اختتام ایک پُرجوش پیغام کے ساتھ کیا:
> "ہماری زبانوں کے بارے میں ہماری غلط فہمیاں یا شاید تعصبات، اس عظیم تنوع کی حقیقت کے سامنے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری طاقت ہماری کمزوری نہیں ہو سکتی۔ آئیے اردو اور ہر زبان سے دوستی کریں۔”
یہ الفاظ نہ صرف عدالتی فیصلے کا حصہ ہیں بلکہ ہندوستانی معاشرے کے لیے ایک عظیم پیغام ہیں کہ ہمیں اپنی زبانوں کو تقسیم کا ذریعہ بنانے کے بجائے انہیں رابطے اور اتحاد کا پل بنانا چاہیے۔
جسٹس سدھنشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف اردو زبان کی عزت بحال کرتا ہے بلکہ ہندوستان کے ثقافتی اور لسانی تنوع کی حفاظت کا عہد بھی دہراتا ہے، یہ فیصلہ ہر اس شخص کے لیے ایک سبق ہے جو زبان کو مذہب یا سیاست سے جوڑتا ہے۔ اردو، مراٹھی، ہندی، اور ہر بھارتی زبان ہماری مشترکہ میراث کا حصہ ہیں، اور انہیں پیار و احترام سے اپنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، یہ فیصلہ ہندوستان کی وحدت میں کثرت کے جذبے کی جیت ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری طاقت ہمارے تنوع میں ہے، ہمارے اختلافات میں نہیں