———————————–
آنکھ کھلتے ہی اک عذاب دیتا ہے
جا نے وہ کیسے کیسے خوب دیتا ہے
چھیڑتا ہے جب دکھ کے تاروں کو کوئی
سر میری غزلوں کو رباب دیتا ہے
پھوٹ کر مٹی سے جو کھل کے ہیں آتے
ان گلوں کو رنگت بے حساب دیتا ہے
کانٹے جیسا ہی ہے وجود یہ میرا
اک چبن سب کو ہی جناب دیتا ہے
مثل مکتب ہے زندگی، ولیکن یاں
رب کہاں اک جیسا نصاب دیتا ہے
سر بہ سجدہ ہوں ، شکر تیرا خدایا
شادمانی بھی بے حساب دیتا ہے