The Daily Urdu Newspaper of Jammu and Kashmir

اردو صحافت کی دوسوسالہ روشن تاریخ و تحریک

0

26 مارچ 2022 کو اردو صحافت کے 200سال پورے ہورہے ہیں۔ دو صدیوں کے اس طویل سفر کے دوران بہت سارے نشیب و فراز آئے لیکن اردو صحافت کا سفر انتہائی نا مساعد حالات میں بھی جاری رہا ۔ انگریزوں کے دور حکومت میں سب سے زیادہ عتاب کا
شکار اردو اخبارات ہوئے۔ صحافت کی دو سو سالہ تاریخ پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اردو اخبارات کے مثالی کردار کے نتیجہ میں ہندوستانیوں کے لئے ملک کی آزادی کی منزل قریب ہوسکی۔ اردو صحافت نے آزادیِ وطن کی شمع کو جلائے رکھنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا۔ جدوجہد آزادی کے دور کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردو صحافیوں نے صحافت کو تجارت یا پیشہ کے طور پر استعمال نہیں کیا ، بلکہ ایک نیک مقصد کے خاطر وہ ایک غلام قوم کو بیرونی طاقت کے خلاف متحد ہونے کے لئے للکارتے رہے۔ ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے اردو اخبارات کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ہندوستان میں قومی تحریک کو آگے بڑھانے میں اردو اخبارات کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اردو صحا فیوں نے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ہندوستان کی تحریک آزادی کے پیغام کو عوام تک پہنچانے اور ان کے اندر ایک انقلابی روح پھونکنے میں جو نمایاں رول ادا کیا اسے دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مایوس اور شکست خورہ قوم میں حریت پسندی کے جذبات پیدا کرنا اور پھر انہیں میدانِ کارزار میں لاکھڑا کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ دیگر طبقے انگریزوں کی قصیدہ خوانی میں مگن مراعات حاصل کرکے تعیش پسندانہ زندگی گزارنے کے عادی ہوگئے تھے ۔ ایسے نازک مرحلے پر اردو کے صحافیوں نے دار و رسن کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے اپنے قلم سے ایک انقلاب پیدا کر دیا اور ہندوستان کی تحریک آزادی کی شمع کو فروزاں رکھنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ اردو کا پہلا اخبار "جام جہاںنما ” 27 مارچ 1822 کو کلکتہ سے جا ری ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اردو صحافت کے 26 مارچ 2022کو دو سو سال پورے ہورہے ہیں ۔ ان دو سو سالوں کے دوران کئی چھوٹے بڑے اخبار نکلتے رہے اور آج بھی ارددو اخبارات اپنا ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ لیکن اردو صحافت کے شاندار ماضی کی بازیافت کرتے ہوئے حال کو بہتر بنانا اور مسقبل کو تابناک بنانے کی کوشش کرنا موجودہ حالات میں انتہائی ضروری ہے۔ جب ہم اردو صحافت کے ماضی کو دیکھتے ہیں تو اس پر واقعی ہمیں فخر ہوتا ہے کہ اردو صحافیوں نے اپنے خونِ جگر سے ایک پوری نسل کی تعمیر کی۔ اس دور کی بڑی بڑی قدآور شخصیتوں نے صحافت کے ذریعہ قوم کو جھنجھوڑا۔ تحریک آزادی کے صفِ اول کے قائدین کا تعلق اردو صحافت سے رہا۔ مولانا محمد علی جوہر سے لے کر مولانا ابوالکلام آزاد تک ایسے بے شمار نام ملتے ہیں جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعہ وہ مجاہدانہ کردار ادا کیا جو تلوار و تفنگ سے بھی ممکن نہ تھا۔ مولانا حسرت موہانی کا "اردوئے معلی "مولانا ظفر علی خان کا "زمیندار "مولانا محمد علی جوہر کا "کامریڈ "اور "ہمدرد ” اور پھر مولانا ابوالکلام آزاد کا "الہلال "اور "البلاغ "یہ وہ اخبارات ہیں جو اس دور کے سنگین سیاسی حالات میں قوم کی صحیح رہنمائی کر رہے تھے۔ ہندوستان کے لئے کامل آزادی کا نعرہ سب سے پہلے حسرت موہانی نے ہی دیا تھا۔ بعد میں کانگریس نے اپنے اجلاس میں منطور کیا تھا۔ یہ محض نعرہ نہیں تھا بلکہ ایک واضح منزل کی طرف اشارہ تھا۔ اردو صحافت کے اس زرین دور کو جب بھی یاد کیا جاتا ہے تو یہی حقیقت سامنے آ تی ہے کہ اس دور کی اردو صحافت کے پیش نظر کوئی مالی منفعت نہیں تھی۔ اردو صحافی ایک قلندرانہ مزاج کے حامل تھے اور ان کے دِل میں ہندوستان کی آزادی کی تڑپ اس قدر موجزن ہو گئی تھی کہ وہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔ حکومت کے جبر و استبداد کے باوجود انہوں نے اپنے قلم کو استعمال کرنے میں مصلحت سے کام نہیں لیا۔وہ حکومت کے کسی اعزاز یا مراعات کے بھی قائل نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو صحافت نے پرآشوب دور میں اپنی خدمات کا ایک تاریخی ریکارڈ چھوڑا۔ آج کے بدلتے ہندوستان میں اردو صحافت کو وہی دیانت دارانہ رول ادا کرنا ہے ، جو اس نے ماضی میں ادا کیا۔ آج صحافت کے بارے میں یہ بات زبان زد و عام ہے کہ صحافت اب مشن نہیں رہی۔ بڑے بڑے سرمایہ دار صحافت کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر قومی صحافت کے تعلق سے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ دور کا نیشنل میڈیا ، سارے صحافتی اصولوں کو فراموش کرکے صرف اور صرف پیسے کمانے میں لگا ہوا ہے۔ شہریوں کے مسائل پر اب قومی صحافت توجہ دینے کے بجائے فروعی معاملات کو زور وشور سے اٹھا کر عوامی مسائل کو حاشیے پر دھکیلنے کا کام کررہی ہے۔ صحافت کا کام عوام کے خیالات کی عکاسی کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ اخبارات کارپوریٹ طبقوں کے نمائندے بن کر ان کے مفادات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ جوکہ صحافتی کردار اور مزاج کیلئے سراسر بے ایمانی اور بے انصافی ھے۔ آج اردو صحافت کے دوسو سال مکمل ہونے پر ضرورت اس بات کی ھے کہ ھم اردو صحافت کے ان روشن قندیلوں کو بجنے سے بچانے کا انتطام کریں جن کو ان اسلاف اردو صحافت نے اپنے خون جگر سے روشن کیا ہے اور اس آزادی صحافت کو برقرار رکھنے کیلئے داروسن کو بھی چومنے سے گریز نہیں کیا۔ اردو صحافت کے دو سو سال مکمل کرنے پر صیح معنوں میں اردو صحافت کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی مبارک باد نہیں ہوگا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.