سِتارے سَجاتا گیا رات بھر
فَسانہ سُناتا گیا رات بھر
اَبھی تک نہیں ہوش باقی میرا
وہ ساقی پِلاتا گیا رات بھر
جو دِن میں اُجاڑا تھا وہ آشیاں
دُوبارہ َبناتا گیا رات بھر
کئی قافلے سنگ آئے میرے
دُکھوں کو بِٹھاتا گیا رات بھر
میں یادُوں کو دَفنا کے آیا تھا گھر
مجھے دُکھ رُلاتا گیا رات بھر
کئی خَط کبھی ریت پر تھے لکھے
اُنہیں بھی مِٹاتا گیا رات بھر
سَبھی پُھول خُوشیوں کے مُرجھا گئے
سو کانٹے سَجاتا گیا رات بھر
میری کھوج میں چاند نکلا مگر
میں خود کو چُھپاتا گیا رات بھر
کِنارہ نہ کوئی دِکھائی دیا
میں کشتی چَلاتا گیا رات بھر