شاعر آزاد پنچھی کے مانند بندھنوں اور سرحدوں کے محتاج نہیں ہوتے، غلام احمد ریشی کی تصنیف "لولہ سفر "کی رسم رونمائی پر صحافی شاہد رشید کا تقریب پر موجود سامعین سےخطاب
گلستان ادب کی جانب سے کشمیری زبان وادب کو عام کرنے کیلئے گمنام اور نوآموز شعراء وقلمکار حضرات کی کھوج جاری وساری
سرینگر/ 27ستمبر/ریاض بڈھانہ
گلستانِ ادب جموں و کشمیر کی طرف سے نوآزمود اور گمنام قلم کاروں و شاعروں کی کھوج کا سلسلہ بدستور جاری وساری ھے اس سلسلے میں گلستان ادب کی طرف سے گزشتہ روز ایک گمنام صوفی شاعر غلام احمد ریشی عرف عمہ کاک کی کشمیری زبان میں نعت و منقبت پر لکھی گئی کتاب بعنوان "لولہ سفر ” کی رسم رونمائی مشہور صوفی بزرگ و ولی کامل با با پیام الدین ریشی رح کی درگاہ کے عقب میں منعقد ھوئی تقریب کی صدارت گلستانِ ادب جموں و کشمیر کے سرپرستِ اعلیٰ اور وادی کے نامور شاعر مجید مسرور صاحب نے انجام دی جبکہ تقریب پر مہمانِ خصوصی جموں و کشمیر کے مایہ ناز صحافی و روزنامہ نیوُ سٹیٹ رپورٹر کے مدیر اعلیٰ شاھد رشید تھے جبکہ تقریب پر نظامت کے فرائض نوجوان شاعر و قلم کار شوکت تلگامی نے بخوبی انجام دئیے۔ "لولہ سفر ” کی باضابطہ رسم رونمائی کے بعد وہاں موجود معزز شعراء و ادباء سے خطاب کرتے ھوئے مہمان خصوصی صحافی شاھد رشید نے کہا کہ ادیبوں اور شاعروں کی دُنیا دیگر لوگوں سے بہت حد تک مختلف ھوتی ھے جہاں عام انسان اپنے آپ کو مختلف بندھنوں اور سرحدوں کے اندر قید کر جیتے ہیں وہی شاعر اور ادیب ان بندھنوں اور سرحدوں کی بندشوں کی پروا کئے بغیر ایک آزاد پنچھی کی مانند فضاوں میں اُڈان بھرتے ہیں۔ پیار محبت اور امن و امان کے سبق اموز پیغام کو پھیلانے کیلے بنا ڈر اور خوف کے انسانی جزبے اور انسانیت کی بقا کیلے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں ھماری وادی جس کو دھرتی پر جنتِ نشان کا لقب ملا ھوا ہے نے بڑے بڑے شاعر اور ادیب پیدا کئے ہیں جنہوں نے دنیائی انسانیت کے بقا کے لئے ایسے پیغام چھوڑے ہیں جن کی خوشبو سے دنیا قیامت تک مہکتی رھے گی یہی وجہ ھے کہ جب 1947 میں ملک دو حصوں میں تقسیم ھوا ۔ اور اس درد بھرے تقسیم کی وجہ سے پورے ملک میں برسوں ساتھ رھے ھمسائے ایک دوسرے کے دشمن بن گیے اور اس طرح سے نفرت کی آندھیوں نے پیار محبت کے تمام چراغ بجھادئیے۔ اس دوران پورے ہندوستان میں بڑی تعداد میں ان نسلی اور مزہبی فسادات کے دوران بہت معصوم لوگ مارے گئے۔
اس کے برعکس جہاں کشمیر کے سیکولر عوام نے بھائی چارے اور پیار و محبت کے شمع کو فروزاں رکھا وہی دوسری طرف اپنے غیر مزہبی بہن بھائیوں کے جال ومال کی بھی رکھوالی کی۔جس سے متاثر ھوکر دنیا کی مہان ہستی اور راشٹر پتا مہاتما گاندھی نے کہا تقسیم ملک کے وقت جب پورا ہندوستان جل رھا تھا اُس وقت مجھے امید اور بھائی چارے کی کرن کشمیر سے دیکھائی دی۔
یہ پیار و محبت اور بھائی چارے کی تعلیم کشمیری عوام کو ان ہی صوفی بزرگوں اور ریشیوں سے ملی ھے جنہوں نے ہمیشہ سے پیار محبت اور بھائی چارے کو جنگ و جدل اور دہشت وحشت پر ترجیح دی۔
اس موقع پر مہمان خصوصی کو اعزاز کے طور پر گستان ادب کے سربراہ نے شال پہنا کر اُن کا خیر مقدم کیا۔
اس موقع پر جہاں فنکاروں نے اپنے فن مظاہرہ کیا وہی محفل مشاعرہ کا بھی انعقاد کیا گیا۔
جن شعراء حضرات نے محفل مشاعرے میں اپنے زریں کلام سے سامعین کو محضوظ کیا ان میں گلستانِ ادب جموں و کشمیر کے سرپرست اعلی جناب مجید مسرور صاحب ، جناب شوکت تلگامی ، جناب عادل محی الدین ، جناب خالد بشیر تلگامی، جناب عاشق مشتاق کلشی پوری ، جناب تصور وسیم ، محترمہ روحی گاش صاحبہ، جناب عبدل مجید ڈار، جناب شیخ مطلوب ، جناب عبدل مجید ملک اور شمع محفل جناب غلام احمد ریشی عرف عمہ کاک شامل تھے
تقریب کے آخر پر صاحب صدر جناب مجید مسرور نے تقریب میں شریک تمام شعراء و ادباء کے ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ شخصیات کے علاوہ گلوکار حضرات کا بھی دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا