افسانچہ… گلشن ادب کا ایک خوبصورت پھول ہے۔
گلشن کشمیر ہمیشہ ادبی فضا سے معطر رہا ہے اوریہاں کے کئی شعرا اورادبا اپنے تخیل کی جمال آفریں لطافت سے گلشن شعرو فکشن کی زینت بڑھاتے آئے ہیں۔ جموں وکشمیر اورلداخ کے کئی فکشن نگاروں نے ناول‘افسانے اور افسانچے بھی لکھے ہیں۔جن لوگوں کے افسانچے میری نظر سے گزرے ہیں ان میں نورشاہ‘ ڈاکٹر نذیر مشتاق‘ڈاکٹر مشتاق احمد وانی‘راجہ یوسف‘ خالد بشیر تلگامی‘شبیر مصباحی‘ محمدشفیع ساگر‘عادل نصیروغیرہ شامل ہیں۔(راقم کے کئی افسانچے شائع ہوچکے ہیں‘ہوسکتا ہے اور بھی لوگوں نے افسانچے لکھے ہوں لیکن میری نظر سے نہیں گزرے ہونگے‘یا اس وقت یاد نہیں آرہا ہے۔بہرحال‘ اگر کوئی تحقیقی نوعیت کا مضمون لکھے گا تو کئی اور نام سامنے آئیں گے۔)کشمیر سے افسانچوں کے تعلق سے جو پہلی مکمل کتاب سامنے آئی ہے وہ معروف معالج‘اور افسانہ نگار ڈاکٹر نذیر مشتاق کی ”تنکے“ ہے۔خیر یہاں پر خالدبشیر تلگامی کا تازہ افسانچوی مجموعہ”دُکھتی رگ“ پیش نظر ہے۔یہ مجموعہ اسی سال یعنی2021ء میں شائع ہوکر آیا ہے۔کتاب ایک سو چھ افسانچوں پر مشتمل ہے۔مصنف کا تعارف اور اپنی باتیں کے علاوہ کتاب سے متعلق 51لوگوں کے مضامین اور تاثرات بھی شامل ہیں۔
ابتدامیں مہتاب انور (جمشید پور)کا خوبصورت شعر بھی موجود ہے:
دکھتی رگ پر مری نہ رکھ انگلی
سچ کا اظہار ورنہ کردوں گا
پیش نظر افسانچوی مجموعے کا نام بھی ”دُکھتی رگ“ہے۔میں سمجھتا تھا کہ اس نام سے کتاب میں افسانچہ بھی ہوگا جو کہ مناسب بھی ہوتا لیکن نہیں ملا۔۔شعر مجھے اس وجہ سے پسند آیا کیونکہ معنوی طور پر یہ افسانچہ نگاری کے فنی احساس کی طرف بھی اشارہ کررہا ہے۔یعنی ایک ماہرافسانچہ نگاربھی سماج کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ کر فن کارانہ نبض شناسی کا حق اداکرتا ہے تبھی تو وہ ایک مختصر افسانچے کے ذریعے انسانوں کے دردوکرب‘نفسیاتی پیچیدگی اور سماجی مسائل وموضوعات وغیرہ فنی ہنرمندی سے سامنے لاکر قاری کو حیران کردیتا ہے۔اس موضوع پر بات پھر کبھی‘فی الحال‘پیش نظر کتاب پر ہی گفتگو کریں گے۔
”دکھتی رگ“ میں کئی ایسے افسانچے نظر آتے ہیں جن میں دردوکرب اور سماجی مسائل و موضوعات کی قابل توجہ عکاسی کی گئی ہے۔ان افسانچوں میں کہیں واقعاتی اسلوب اور کہیں کہیں موضوع و مسائل کو کہانی کے روپ میں عمدہ انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری افسانچہ پڑھ رہا ہے‘یہ ایک افسانچے کی اہم خوبی ہوتی ہے۔ان افسانچوں میں ”نجات“”سبق“”گناہ کا کھیل“ ’’عقیدت“”لاوارث“”اپنی مسجد“”کمنٹ“”احسان“وغیرہ
افسانچہ”نجات“ دوکرداروں ’جج صاحب“اور اس کے’دوست ارشد‘کے مکالموں پر مشتمل ہے۔موضوع انصاف اور سیاست ہے۔چائے پینے کے دوران جب ارشد کو محسوس ہوتا ہے کہ جج صاحب کسی الجھن میں نظر آتے ہیں تو اس کے پوچھنے پر جج صاحب کہتے ہیں کہ وہ نوکری سے استعفیٰ دینے کے بارے میں سوچتا ہے۔یہ سنتے ہی ارشد کہتا ہے کہ اتنی اچھی باعزت نوکری چھوڑنے کی بات‘آپ کے منصفانہ فیصلوں کے چرچے سارے شہر میں ہوتے ہیں اور آپ کی ایمانداری اور انصاف پسندی کے تو لوگ گیت گاتے ہیں۔اب افسانچہ نگار نے حساس انداز سے موضوع اور عنوان”نجات“ کو افسانچہ کا کلائمکس بنایا ہے جو کہ سیاست دانوں کے ہاتھوں انصاف کا خون کرنے کی عمدہ طنز آمیز عکاسی کرتاہے:
”اب میں کیا بتاؤں‘جج صاحب سرد آہ بھرتے ہوئے بولے۔اسی ایمان داری اور انصاف کو سیاست نے اپنا غلام بنائے رکھا ہے…اور میں ایسی غلامی سے نجات چاہتا ہوں۔“
افسانچہ”سبق“ میں تیمادار کے ہاتھوں فرض ناشاس میڈیکل آفیسر کو اچھا سبق سکھانے کا واقعہ پیش ہوا ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ آج کل کے بیشتر مادیت پرست ڈاکٹر کس طرح سرکاری اسپتالوں میں اپنے فرض سے لاپرواہی برتتے ہیں اور عوام کو مجبور کرکے اپنے پرائیوٹ کلینکوں کی طرف جانے کی تدبیریں کرتے رہتے ہیں۔ قانونِ فطرت ہے کہ ہر برائی کا بدلہ برا ہی ہوتا ہے۔افسانچہ ”گناہ کا کھیل“ میں جب ایک آدمی ڈاکٹر سے اپنے ساتھی کا ابارشن کرنے کی بات کرتا ہے تو دو دن کے بعد ہی وہ ڈاکٹر سے عاجزی کرتے ہوئے پھر سے دوا ئی کا کہتا ہے۔وجہ اس کی برائی کا بدلہ برا:
”سر۔۔۔ اس بار دوا میری کنواری بہن کے لئے چاہے۔“
افسانچہ”احسان“ ایک اچھا اصلاحی افسانہ ہے۔بیت المال سماج کی ایک اہم ضرورت ہے لیکن کئی لوگ اس فلاحی کام میں بھی روڑے اٹکاتے رہتے ہیں۔افسانچے کا کردار ایک ایسا ہی آدمی ہوتا ہے جو بیت المال کو چندہ تک نہیں دیتا تھا۔ لیکن جب ایکسیڈنٹ میں اس کا بیٹا زخمی ہوجاتا ہے تو اس کے آپریشن کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں جو کہ اس کے پاس نہیں ہوتے۔آپریشن ہونے کے بعد وہ ڈاکٹر سے پوچھتا ہے کہ پیسے کس نے جمع کروائے تو ڈاکٹر کے منھ سے بیت المال کا نام سنتے ہی وہ مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے۔ افسانچے کا عنوان ”احسان“ کے بجائے ”بیت المال“ زیادہ مناسب رہتا۔
کتاب کے کئی افسانچے عمدہ پیام کے حامل نظر آتے ہیں اور ان میں فنی لوازمات کا خیال بھی رکھا گیا ہے۔تاہم کئی افسانچے سطحی قسم کے خیالات کا نثری اظہار ہے جن میں زبان وبیان اور افسانوی تقاضوں کا خاص خیال نہیں رکھا گیا ہے۔افسانچہ صرف خیالات کا سطحی اظہار نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں خیال کو فن بناکرپیش کیا جاتا ہے۔جیسا کہ مذکورہ افسانچوں میں نظر آتا ہے۔افسانچہ ”شارٹ کٹ“ کی کہانی اچھی ہے لیکن اختتام ایک لطیفے سےکچھ زیادہ تاثر نہیں چھوڑتا ہے۔اسی طرح افسانچہ ”ماسک“ ”اعلان“ ”دستور“ ”معصوم سوال“”واہ کرونا“”سپنے“ وغیرہ۔افسانچہ”شرمندہ دیوالی“ میں پہلے غائب کردا ر یعنی ”وہ ایک مشہور اخبار کا نامہ نگار“ اورپھر راوی حاضر کردار بن کر سامنے آتا ہے۔ ”میں نے قریب جاکر اس بچے سے پوچھا۔“یہاں دو میں سے ایک ہی کردار موجود ہونا چاہے۔کئی افسانچوں میں فنی چستی کی کمی بھی نظر آتی ہے۔
مجموعی طور پر کتاب کے کئی افسانچے دلچسپ تاثر چھوڑتے ہیں۔امید ہے کہ مستقبل میں خالد بشیر صاحب کے اور بھی معیاری افسانچے پڑھنے کو ملیں گے۔
……مسکرہٹ……
تازہ ترین خبریں
- سوشل میڈیا پر بیہودہ مواد کو روکنے کے لیے موجودہ قوانین کو مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے/اشونی ویشنو
- Supreme Court Condemns "Bulldozer Justice,” Restricts Executive from Property Demolitions*
- Dulat criticizes LG for calling meetings with bureaucrats amid elected Government
- Daily wagers, contractual employees to be regularized soon: Tanvir Sadiq
- *ایس ایس پی سرینگر کی عید میلادالنبی کے مقدس موقع پر عوام کو مبارکباد*
- لیفٹیننٹ جنرل امردیپ سنگھ اوجلا 15کور کے نئے کور کمانڈر تعینات
- بائیڈن کو خبردار کیا گیا تھا کہ افغانستان سے فوری انخلا پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور ملکی سلامتی کے لیے خطرات بڑھا سکتا ہے۔
- چین جلد از جلد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پی5 کا اجلاس بلانا چاہتا ہے/ژانگ جون
- ٹرمپ صدارت کے آخری دنوں میں چین پر ایٹمی حملہ کرنے کا سوچ رہے تھے
- طالبان سے کابل میں داخل نہ ہونے کا معاہدہ تھا، اشرف غنی نے معاملہ بگاڑ دیا/ زلمے خلیل زاد