اردو زبان و ادب میں بنگال کو لکھنو اور دلی کی طرح ایک دبستان کی حیثیت حاصل تو نہ ہو سکی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو زبان و ادب کے ارتقاء اور فروغ میں بنگال نے ایک اہم حصہ ادا کیا ہے۔یہاں ادبی مجلسوں اور نششتوں نے کچھ وقت کے بعد ایک تناور درخت کا روپ اختیار کیا۔ڈاکٹر فرحت آرا کہکشاں بنگال میں اردو زبان و ادب کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتی ہیں:
”بنگال میں اردو زبان سترویں صدی عیسوی میں رواج پا چکی تھی۔اسے ادبی
حیثیت اٹھارویں صدی عیسوی میں ملی۔اٹھاروی صدی کے اواخر اور انیسویں
صدی کے اوائل کوبنگال میں شعرو ادب کا ارتقائی دور کہا جا سکتا ہے۔“
(بنگال کا اردو ادب:چند اہم گوشوں کی بازیافت،مرتبین۔ڈاکٹر فرحت آرا کہکشاں،نکہت جہاں،ص۔13گرافک پرنٹ کلکتہ۔2009ء)
کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کے قیام نے اردو شعر وادب کو مہمیز کیا۔یہاں سے اردو شاعری اور نثر کی سینکڑوں کتابیں تصنیف و تالیف ہوئیں جن سے ریاست میں اردو شاعری و نثر کو کافی فروغ ہوا اور اردو شعر و ادب تیزی سے ارتقائی منزلیں طے کرنے لگا۔
فورٹ ولیم کالج کے قیام سے پہلے اور برطانوی حکومت کے استحکام سے قبل مرشد آباد اٹھارویں صدی میں بنگال کا اہم شہر بن چکا تھا جہاں مرشد آباد کے راجاؤں کی سر پرستی میں شعرو ادب کو فروغ ہو رہا تھا۔مرشد آباد اٹھارویں صدی کے نصف تک بنگال میں ادب و ثقافت کا مرکز بنا رہا۔اس زمانے میں مرشد آباد میں قدرت اللہ قدرتؔ،میر باقر مخلصؔ مرشد آبادی،انشاء اللہ خان انشاءؔ جیسے شعراء پیدا ہوئے جنہوں نے اردو غزل کو معیار عطا کیا اور انکی شہرت دور دور تک گئی۔انیسویں صدی میں بنگال میں نساخؔ،انسخؔ،رشید ؔالنبی،شمسؔ کلکتوی،صادق اخترؔ،اکرام صیغم جیسے کاملِ فن پیدا ہوئے جنہوں نے اردو غزل کووہ بلندی عطا کی کہ وہ دہلوی اور لکھنوی اسکول سے آنکھ ملانے لگی۔نساخؔ نے اپنی فکری بلندی اور فنی پختگی کی بدولت خود کو لکھنو کے شعراء ناسخؔ اور مصحفیؔکا ہم پلہ ثابت کر دیا۔شمسؔ کلکتوی نے بھی غزل گوئی میں ایسا نام پیدا کیا کہ بنگال میں غزلیہ شاعری دہلوی شعراء کی غزلوں سے آنکھ ملانے لگی۔مرزا داغ ؔدہلوی کا ایک شعر ہے۔
بھنویں تنی ہیں،خنجر ہاتھ میں ہے،تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے جو یوں بن کے بیٹھے ہیں
شمس ؔ کلکتوی نے کہا
جبیں پہ بل ہے غصہ آنکھوں میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
مری بگڑی ہوئی تقدیر گویا بن کے بیٹھے ہیں
گویا انیسویں صدی ہی میں بنگال میں اردو غزل نے اپنے قدم جما لئے تھے اور یہاں کے شعراء نے اپنی قادرالکلامی کا ثبوت دے دیا تھا۔ بیسویں صدی میں بنگا میں اردو غزل کو وحشتؔ،آرزوؔ لکھنوی،غواصؔ قریشی،آرزو ؔسہارنپوری،جرم محمد آبادی،جمیل ؔ مظہری،مائل لکھنوی،قمر صدیقی،پرویز شاہدیؔ،شاکر ؔکلکتوی،رضاؔ مظہری،ابراہیم ہوشؔ جیسے مستند و معتبر شعراء ملے۔ان شعراء نے بیسویں صدی میں اردو غزل میں بدلتے ہوئے سماجی وسیاسی اقدار سے اثر قبول کرتے ہوئے اور عالمی اور قومی سطح پرادبی رجحانات اور نظریات سے متاثر ہو کر نئے نئے موضوعات اور خیالات کو پیش کیا اور غزل کو انیسویں صدی کے جاگیر دارانہ ماحول اور پر تصنع اسلوب کے حصار سے نکال کر حقیقت پسندانہ اور جمہوری مزاج عطا کیا۔ وحشت ؔ کلکتوی نے اردو غزل میں غالبؔ کے اسلوب کو اپنایا اور غالب دوراں کہلائے۔انکے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
تیرے انداز سے ہے یہ ظاہر وحشتؔ
کہ مقدور ہے ترا غالبؔ دوراں ہونا
کہتے ہیں کیوں ساحر بنگالہ وحشتؔ مجھکو لوگ
کچھ تو طرز غالبؔ جادو بیاں رکھتا ہوں میں
آزادی کے بعد بنگال کی اردو غزل بھی ملک کے دوسرے حصوں کی غزلوں کی طرح بدلتے ہوئے سماجی،سیاسی حالات سے اور عالمی ادبی نظریات سے متاثر ہوئی۔آزادی کے بعد بنگال میں اردو غزل جن دو نظریات و میلانات سے بہت زیادہ متاثر ہوئی وہ ہیں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت۔جدیدیت اردو غزل میں مغرب سے آئی،دو عالمی جنگوں اور صنعتی ترقی کے نتیجے میں مغرب میں جو سماجی اور ذہنی انتشار،سماجی و معاشی تباہی اور اخلاقی اقدار پر زوال آیا اس نے وہاں کی شاعری کو کو بہت زیادہ متاثر کیا۔اس کے نتیجے میں وہاں جو ادب تخلیق ہوا اسے جدید ادب کہا گیا۔کم و بیش وہی سماجی اور سیاسی انتشار آزادی کے بعد بر صغیر میں دیکھا گیا۔تقسیم ہند کے نتیجے میں جو خونریز فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اس نے یہاں کی سماجی زندگی کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔معاشی اور سیاسی عدم استحکام اور مذہبی منافرت نے فرد کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔وہ تشکیک،خدا بیزاری،ما بوسی اور اخلاقی تنزلی میں مبتلا ہو گیا۔ترقی پسندی کے زوال نے ادب میں فردیت اور داخلیت کو فروغ دیااور اس کا ا ثر غزل پر بھی پڑا۔اس دور کی غزلوں میں کلاسیکی غزل کی روایت سے بغاوت اور نئی علامتوں اور پیکروں کے استعمال پر زور دیا گیا۔غزل میں فنی اور اسلوبیاتی تبدیلیاں رو نما ں ہوئیں۔اس دور میں بنگال میں جدید غزل کے چار نمایاں نام دیکھنے کو ملتے ہیں۔اعزاز اؔفضل،علقمہؔ شبلی،قیصرؔ شمیم اور رونقؔ نعیم،فاورق شفقؔ
وغیرہ ان پانچوں کے یہاں جدید غزل کا تیور نمایاں ہے۔ان کی غزلوں میں اسلوب کا نیا پن،عصری آگہی اور نئے دور کے انسانوں کا کرب جھلکتا ہے۔مثال کے طور یہ
غزل دیکھیں:
زندگی میں کوئی حادثا چاہئیے
جیسے ہو برف کو توڑنا چاہیئے
پیچ ہے کچھ بھی نہیں خواب دیتے نہیں
سچ خواب پھر بھی ہمیں دیکھنا چاہیے
ہنس رہا ہے وہ شاید نیا ہے یہاں
اس کا نام اور پتہ پوچھنا چاہئیے
زندگی ریگ زارہ ہوس ہی سہی
چل کے کچھ دور تک دیکھنا چاہئے
رکھے رکھے یونہی رنگ اُڑ جاتا ہے
بند صندوق کو بھی ہوا چاہئے
فاروق شفق ؔ نے بنگال کی اردو غزل کو نیا تیور عطا کیا اور انسان اور اس کے مسائل کو نئے استعاروں اور علامتوں کے ذریعہ تہہ داری اور معنویت کے ساتھ پیش کیا۔وہ جدید غزلوں میں ترقی پسندانہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔وہ ترقی پسندی اور اشتراکیت سے متاثر رہے مگر ان کا لب و لہجہ اور اسلوب جدید ہے۔
یہ سوکھی شاخیں کہاں تک بھلا ہلاؤں میں
کہو تو پھر اُسی دنیا میں لوٹ جاؤں میں
میں شب کی پلکوں پہ آنسو کا ایک قطرہ ہوں
ہلے ہوا کا بہانہ تو ٹوٹ جاؤں میں
لباس چہرہ، بدن گھر بھی ہیں شیشے کے
کہا ں کہ کسی کو نظر نہ آؤں میں کہاں چھپور
لباس خالی بدن کا بھرم رکھیں کیتک
پھلوں کے چھلکے یو نہی کب تلک سجاؤں میں
ز میں بلند ہے دیوار بن کے راہوں میں
ہے فکر کس طرح آگے قدم بڑھاؤں میں
سلیٹ خوابوں کی کرچوں میں بٹ گئی ہے شفق
نوشتہ دیکھوں کہ اب تکرچیاں اٹھاؤں میں
فاروق شفقؔ اور علقمہ شبلی کی شاعری کا اگر موازنہ کیا جائے تو دونوں کی شاعری میں مماثلت نظر آتی ہے۔بھی ترقی پسندی کے دور کی پیداوار ہیں مگر انہوں نے جدیدیت کے دور میں اپنے فن اور اپنی فکر کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔وہ ترقی پسندی اور اشتراکیت سے متاثر رہے۔مگر نئے دور کے مسائل اور جدید انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو علقمہ شبلی اپنی غزلوں میں خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔
ایک سر بھی تو نہ پہنچا بہر سجدہ دیکھئے
اب وہ کس در پہ اپنا آستاں لے جائیگا
دل کے دروازے پہ دستک کی صدا کوئی نہیں
یہ وہ زنداں ہے جس میں راستہ کائی نہیں
فارق شفقؔ کی غزل دیکھیں:
پہلی رت کے ہاتھ میں پنا ہرا دیتے رہو
اپنے ہونے کا یہاں کچھ کچھ پتا دیتے رہو
انگلیوں کا بوجھ رکھ دو منٹوں کی آنکھ پر
گاہے گاہے خواہشوں کو یہ سزا دیتے رہو
قریہ جاں میں کسی دن پھول پھل بھی آئیں گے
آندھیوں کو اس طرف سے راستہ دیتے رہو
جم نہ جائے راکھ تنہائی کی برگ سبز پر
اس نواح خوف کو رنگ نو ا دیتے رہو
ہو گئے گم سر می ٹیلوں میں صبحوں کے سفیر
خود شنو اپنی صدا خود ہی صدا دیتے رہو
قیصرؔ شمیم بھی جدیدیت کے دور میں ایک شاعر کی حیثیت سے ابھرے مگر وہ اشتراکیت سے باضابطہ وابستہ رہے اس لئے انکے کلام میں بھی ترقی پسندانہ خیالات و افکار ملتے ہیں مگر ان کا لب و لہجہ نیا ہے۔لہذا، ترقی پسندانہ طرز فکر اور جدید اسلوب اور پیرایہء اظہار نے ملکرایک منفرد شعری فضا کی تشکیل کی ہے۔ٹھیک اسی طرح سے فاروق شفق کے یہاں بھی اشتراکیت کی مثالیں ملتی ہیں۔
کھلے دریچے کے باہر ہے کون سا موسم
کہ آگ بھرنے لگی سرد لہر آنکھوں میں
نگل رہی ہے یہاں ریت دم بہ دم ہم کو
یہ ریگ زاد خطر در خطر کہاں کا ہے
ہمارے جسموں کو موجیں نگل گئیں قیصرؔ
کہ ساعتوں کا سمندر بڑے جلال میں تھا
فاروق شفق ؔ:
اپنی پہچان کوئی زمانے میں رکھ
خود کو ضائع نہ کر کچھ خزانے میں رکھ
رات کی بے لباسی کو رنگیں بنا
شام کے پھول چن کے لفافے میں رکھ
روشنی کی ضرورت پڑیگی تجھے
آگ محفوظ کچھ آشیانے میں رکھ
جانتا ہوں میرا کوئی مصرف نہیں
ایک فیشن سمجھ کے حوالے میں رکھ
سارے تیروں کو ایک ساتھ ضائع نہ کر
فرق کچھ تو اندھیرے اجالے میں رکھ
ان لحافوں کے اوپر ہیں نا سے تنکے
دل کو اپنے اسی اک بہانے میں رکھ
انہوں نے جدید غزل میں فطرت کے مناظر اور اجزاء کو علامتوں کے طور پر استعمال کیاہے۔وہ فارسی ترکیبوں اور الفاظ کا استعمال کم کرتے ہیں اور اردو کے عام فہم الفاظ سے اپنے مفہوم کو بخوبی ادا کر تے ہیں۔کبھی کبھی وہ ہندیکے الفاظ بھی موقع کے لحاظ سے استعمال کر لیتے ہیں۔انکی غزلوں میں بنگال کی مٹی کی خوشبو ملتی ہے۔وہ سماجی و سیاسی موضوعات کو علامتوں اور استعاروں کی مدد سے پیش کرتے ہیں اس لئے ان پر نعرے بازی کا الزام نہیں لگا۔حالانکہ وہ ترقی پسندی سے متاثر رہے۔ان کی یہ
غزل دیکھیں:
کھڑکیوں پر ملگجے ساتے سے لہرانے لگے
شام آئی پھر گھروں میں لوگ گھبرانے لگے
شہر کا منظر ہمارے گھر کے پس منظرمیں ہے
اب ادھر بھی اجنبی پہ نظر آنے لگے
دھوپ کی قاشیں ہر سے مخمل پر نعو دینے لگیں
سائے کمروں سے نکل کر صحن میں آنے لگے
جگنوؤں سے پہنچ گئیں راہیں کسی کی یاد کی
دن کی چوکھٹ پر مسافر شام کے آنے لگے
بوندیاں برسیں ہوا کے بادباں بھی کھل گئے
نیلے پہلے پہر بہن سڑکوں پہ لہرانے لگے
سوچتے ہیں کاٹ دیں آنگن کے پیڑوں کو شفق
گھر کی باتیں یہ گلی کوچے میں پھیلانے لگے
میں اپنی پہچان بنانے والوں میں ناظمؔ سلطانپوری،خالقؔ عبداللہ،احمدؔ رئیس،شہود عالم آفاقی،فاروق شفقؔ، وحید عرشیؔ،حبیب ہاشمی،محبوبؔ انور،شبیر ابر وی،حشم الرمضان کے نام قابل ذکر ہیں۔انکی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدید معاشرے کے جذبات و مسائل کی ترجمانی بھی۔ان کا اسلوب اور انکی لفظیات میں جدت اور جدیدیت کا رچاؤ بھی ہے۔
وہ بھی اک طوفان کا پالا ہوا انسان تھے
کشتیاں اپنی جلا کر میر ساحل بن گیا
(احمدؔ رئیس)
سیاہ بادل گرج رہے ہیں لہو کی بارش ضرور ہوگی
اب آپ کی کھوکھلی پناہیں حضور لیکر بھی کیا کریں گے
(خالقؔ عبداللہ)
سلگ رہا ہوں ستاروں کی چھاؤں میں تنہا
جواز ڈھونڈ رہا ہوں تری جدائی کا
(ناظمؔ سلطانپوری)
روشن چراغ کرنا غریبوں کے خون سے
کوئی خطا نہیں ہے خطاؤں کی شہر میں
(شہود عالم آفاقیؔ)
بے تکلف ہو کے دونوں آج مدت پر ملے
اس کی الجھن کم ہوئی میری پریشانی گئی
(فاروق شفقؔ)
غمِ حیات کی کیلیں تھیں دست دیا میں جڑی
تما عمر رہے ہم صلیب پر لٹکے
(وحید عرشیؔ)
اس دور میں فاروق شفقؔ نے تیزی سے غزل گوئی میں اپنا مقام بنایا۔انہوں نے شعری اظہار کے بندھے ٹکے پیمانوں کو توڑا اور اظہار کے نئے پیمانے وضع کئے۔انہوں نے غزلوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو عوام کی زبان میں پیش کر کے غزل کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا۔گاؤں کی زندگی اور اس کی سادگی اور شہری زندگی کے تصنع،تعفن،مکر و فریب،ریا اور اخلاقی پستی کوانہوں نے اپنے غزلوں میں سمویا۔غربت و افلاس،بیروزگاری اور موقع پرستی کو بھی انہوں نے اپنے غزلوں میں پیش کر کے غزل کو عوام کے جذبات کا ترجمان بنا دیا۔وہیں دوسری طرف فاروق شفق ؔ اسی طرز پر اپنی شاعری کے ذریعہ سے اس سر زمیں کو جلا بخشی ہے۔انہوں نے سماجی مسائل کو اردو غزل میں اعلی ٰ مقام پر فائز کر کے ایک نئی روایت قائم کی۔
وہ تو لکھا کے لائی ہے قسمت میں جاگنا
ماں کیسے سو سکے گی کہ بیٹا سفر میں ہے
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھا تے
کچی سڑکوں سے لپٹ کر بیل گاڑی رو پڑی
غالباً پر دیس کو گاؤں والے جائیں گے
ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لیں یہ بھی چمن والے
یہاں اب کوئلہ چنتے ہیں پھولوں سے بدن والے
فاروق شفق ؔ کی غزل دیکھیں:
غمزدہ دوستوں سے جھجھکتا ہوں میں کھل کے شفقت کا اظہار کرتے ہوئے
شوخ بچہ شرارت پہ جیسے ڈر سے آنکھ ماں باپ سے چار کرتے ہوئے
ایک ہی گھر مگر مسئلے مختلف اس کے دن میرے دن میں بڑا فا صلہ
رات آئی تو دونوں تھکے ہارے تھے سو گئے خود کو بیدار کرتے ہوئے
پیچھے مڑ کے کسی نے نہ دیکھا کبھی جو ہوا اس پر دونوں ہی تھے مطمئن
ایک تلوار تھی دونوں کے درمیاں دونوں زخمی ہوئے پار کرتے ہوئے
میری کوشیش کو دخل اس میں کچھ بھی نہیں خود یہاں کی ہوائیں ہیں بوجھل بہت
گھر سے چلتے ہیں خود کو ہنساتے ہوئے کوٹتے ہیں تو بیزار کرتے ہوئے
کچھ پس و پیش سے کچھ وہ ڈرتا بھی ہے اندر اندرہ مگر ایک خواہش بھی ہے
چاہتا ہے وہ تنہا نتیجے کا پھل جرم پر مجھ کو تیار کرتے ہوئے
جھانکتی ہے ہر اک گھر میں پاگل ہو ا منتظر اک بہانے کی ہے یہ فضا
واہے دل میں آتے ہیں کیا کیا شفق خشک تنکوں کا انبار کرتے ہوئے
1980 کے بعد اردو غزل میں با بعد جدیدیت کا دور شروع ہوتا ہے۔مابعد جدیدیت کوئی ادبی تحریک نہیں تھی بلکہ نظریات اور سیاسی و سماجی تحریکوں سے آزاد شاعری کا منظر نامہ تھا۔اس دور کا شاعرانہ ترقی پسندی سے نظریاتی وابستگی رکھتا تھا اور نہ ہی جدیدیت کو فیشن کے طور پر استعمال کرنے کا قائل تھا۔اس دور کے شاعر نے اپنے ضمیر،اپنے ذہنی میلان اور اپنے مشاہدے کو رہنمابنایا اور سماجی آگہی سے پر ُاور تہذیبی و ثقافتی زندگی کی ترجمانی غزلوں میں کی۔انکے یہاں روایت اور جدّت کا امتزاج ہے۔اس کے باو جود ہر شاعر نے غزلوں میں اپنی انفرادیت قائم کرنے کی کوشش کی۔ان شاعروں میں اشہر ہاشمی یوسف تقی،کلیم حاذق تسلیمؔ نیازی، ف س اعجاز، ،احسان ثاقب،ؔ،حلیمؔ صابر،محسن باعشن حسرتؔ، نصراللہ نصرؔ شفیق،ندیم ؔ ،فیروز اخترؔ، فصیح احمد ساحرؔ ،فراغؔ روہوی ،نوشادؔ مومن،سہیلؔ ؔارشد، وقیع منظرؔ،معراج احمد معراج اکبر حسین اکبرؔ فیروز مرزا عنبر شمیم عظیم انصاری احمد کمال حشمی خورشید اقبال وغیرہ نے بنگال کی جدید غزل کی فکری اور فنی پرورش کی ہے۔ان کے علاوہ اس سر زمین پر فاورق شفقؔ نے اپنی قلم فرسائی سے یہاں کے عوام میں وہ مقام پیدا کیا ہے جس سے اس سرزمیں کا وقار بلند ہوا ہے اس سرمیں کے قلم کاروں کی آبیاری کے بارے میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
غزل میں بنیادی چیز واردات ہے۔ کلاسیکی زمانے میں ایسا ہوتا رہا اور اب
بھی غزل میں تازگی ایسی راستے سے آتی ہے۔ بیچ میں یہ واردات غائب ہو گئی
تھی اور پنجایت باقی رہ گئی تھی۔ معاشرے کی اہمیت سے کسی کو انکار ہے لیکن
کچی اور اچھی شاعری بھی تو معاشرے کی ضرورت ہے۔ نئی غزل اسی ضرورت
کے پورا کرنے کے لئے وجود میں آئی اور شاعری کی آباد کاری کے اسی کام
میں لگی ہوئی ہے۔ واردات کا سیدھ کا سیدھا رشتہ نہ ذاتی تجربے انفرادی
آہنگ اور شخصی لہجے سے ہے۔ فاروق شفق بھی اسی قبیلے کے فرد ہیں جو دشت
سفر میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ ان کا بنیادی مسئلہ اس آدمی کی بازیافت
ہے جو ہمارے سچ سے غائب ہوتا جار رہا ہے۔ اس کی بحالی اور معاشرے کی
الجھنوں میں اس کی زندگی کرنے کی خو اور اس کے چھوٹے بڑے بھید شہر آئندہ
ان کے معلوم کرنے کی سعی و جستجو ہے۔
(پروفیسر گوپی چند نارنگ)
اگر دیکھا جائے تو فاروق شفق کی شاعری میں اظہارکے نئے نئے پیرائے اور کبھی کبھی تجربے بھی ملتے ہیں۔اور اس طرح غزل کے دو مصرعوں میں معنی کے ایک جہان کو قید کرنے کا مشکل کام انجام دیتے ہیں۔ ذیل میں ان کے اشعارنمائندہ
اشعار درج کئے جاتے ہیں۔
جو کالی اینٹوں سے اپنے مکاں بناتے ہیں
وہ شام ہونے سے پہلے دئے جلاتے ہیں
ہوا ہی ہم کو میسر نہ کر میں سورج کی!
بدن کے کپڑے بدن ہی پہ سوکھ جاتے ہیں
تمام دن میں کہیں بھی رہوں پہ شام ڈھلے
مجھے سمیٹنے والے سمیٹ لاتے ہیں
فضا ئے شہر بہت پر سکون ہے، لیکن
یہ اشتہاری بدن سنسنی بڑھاتے ہیں
فضا مکان کی بدلے کسی کو فکر نہیں
سبھی دریچوں میں پردے نئے لگاتے ہیں
اجار میز پہ یادوں کے آئینے اکثر
صدا کے تیز چھنا کے سے ٹوٹ جاتے ہیں
ایک دوسری غزل دیکھیں:
گھر کی فضا کو کوئی کہاں تک بچائے گا
باہر کا نکس کھڑکی سے کمرے میں آئے گا
دیواریں کچی ہی سہی تیرا لباس ہیں
کیا اپنے گھر کو لوگوں کا رستہ بنائے گا
سیلاب کا یہ خوف مسلط ہے ہر طرف
گھر میں بھی رہ کے آدمی اب ڈوب جائے گا
کھڑکی کا کچھ قصور نہیں تیز ھے ہوا
جتنا دھواں اڑے گا سب آنکھوں میں آئے گا
انجانی خوشبوؤں کی بشارت ہوا میں ہے
موسم سے پہلے پھول درختوں میں آئے گا
گر گر کے چور ہوں گے سبھی پھل درخت کے
آب کے کسی کے گھر میں یہ تحفہ نہ جائے گا
فاروق شفق کو اس بات کا احساس ہے کہ اشیاء کے بارے میں اس کی فہم اور درّاکی اتنی دور رس ہے کہ وہاں تک پہنچنا اور اس کی ہمنوائی کرنا آسان کام نہیں۔
آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا
ہاتھ میں اک سوکھا پتا رہ گیا
شہر تو ثابت ہوا شہر خیال
آنکھ میں بس اک دھند لکارہ گیا
آگئے بارش کے دن، دیوار پر
اک ذرا سا رنگ بیچارہ گیا
کھلکھلا کر دھوپ پیچھے ہٹ گئی
ہوتے ہوتے اک تماشا رہ گیا
اور یہ شعور اور آگہی دور رس ہی نہیں‘ بلکہ اس کا اپنا تشخص اور اس کے طبعی التزامات وقت کی پابندیوں سے ماوراء ہیں:وہ مقام کی حد بندیاں احساسات اور جذبات کی وسعتوں کو قید نہیں کر سکتیں۔ دو شعر جن میں سے پہلا ذہن کو ایک طرح کی زیر زمین مایوسی اور اضمحلال کے احساس سے بھر دیتا ہے‘ اور دوسرا جس میں تنہائی کی خاموشی کو ایک زبان دے دی گئی ہے‘ اس طرح ہیں:
تم پہ کی اپنی بخشش کبھی عام کر
ایک دن اس علاقے میں بھی شام کر
رونق شام میں تیرا حصہ بھی ہے
دن گزارا یہاں تو یہیں شام کر
اجلی پوشاک میں بدلیوں کو چھپا
تشکریم کی کوشش کو ناکام کر
پھول پر آنسوؤں کی بہت شبنم چھڑک
نیک لو لوگوں کو ایسے نہ بد نام کر
دوستی شہر والوں سے اچھی نہیں
دور ہی دور رہکر ہر اک کام کر
شام پوشاک بدلے ہے در پہ کھڑی
روشنی سے منور درو بام کر
دوسرے شعر میں استعارے کا استعمال نہ صرف خموشی کی تجسیم کر دیتا ہے‘ بلکہ محیط خاموشی کے احساس کو شعور پر مرتسم بھی کر دیتا ہے۔ ایک شعر میں خارجی اور داخلی حقیقت کو اس طرح پہلو بہ پہلو رکھا گیا ہے:دو اور اشعار میں دو مختلف النوع حقیقتوں کو اس طرح بالمقابل رکھ دیا گیا ہے:یہاں دونوں شعروں میں بصری اور سماعی پیکروں کو بڑی ہنر مندی سے یکجا کیا گیا ہے
خود گلے تک ہیں سبھی ڈوبے ہوئے پانی میں
کس کے گھر جائیں ہم اس بے سرو سامانی میں
پیر مین بھیگی تمنا کے بدن پر ہی رہیں
سوکھ جائیں گے کڑی دھوپ کی نگرانی میں
راہ میں بیٹھی ہیں ناکام بلائیں دن کی!
ایک بھی گھر نہ بچے گا شب طوفانی میں
سات پردوں میں چھپا جسم بھی شرماتا ہے
ماں کوئی کشش رہ گئی عریانی میں اب کہاں
ایک اک کر کے سبھی اپنے ہی سائے پہ گرے
سایہ اکبر بھی دشمن بنا ویرانی میں!
موسم شہر ہے جاتے بھی کہاں بچ کے شفق
ہم کبھی سوکھے، کبھی بھیگے، ہوا پانی میں
تنہائی کا وہ احساس جس کا سرسری ذکر اوپر گزرا‘ ایک غزل کے دو اشعار میں اس طرح معرض اظہار میں لایا گیا ہے:
اب کے سفر میں سبنرے بھی یوں سرسری
ملے اک اجنبی سے جیسے کوئی اجنبی ملے
بادل ہے تو نرم خنک چاندنی ملے
اس گھر کے آس پاس بھی کچھ روشنی ملے
ٹکرا کے مجھ سے روز گزرتی ہے ایک بھیٹر
مدت سے آرزو ہے کوئی آدمی ملے
جگنو کی طرح چاند ستارے بھی کھو گئے
آنگن میں روز روز کہاں چاندنی ملے
بے بس، اُداس، خوفزدہ بدلیوں میں چاند
جیسے اندھیری رات میں لڑکی کوئی لے
خوابوں کی فصل کٹنے کے یہ دن نہ تھے شفق
ممکن ہے اب نہ دھوپ کی پتی ہری ملے
ان کے اشعار میں سادگی کے ساتھ پرکاری اور رمزیت آمیز کر دی گئی ہے۔ ایک پوری غزل میں جو اس شعر سے شروع ہوتی ہے:حافظے میں مجتمع یادوں کو تازہ کرنے کا عمل صاف نظر آ رہا ہے۔
ڈوبنے کی اور کچھ حسرت نکالی جائے گی
لاش اسکی سطح کے اوپر اچھالی جائے گی
رونقیں ساری نمائش گاہوں کی رخصت ہوئیں
گیلری سے ایک اک تصویر اٹھالی جائے گی
ہلکی ہلکی ہے پھوا میں اچھالگتا ہے ابھی
تیز بوندیں ہوں گی تو چھتری سنبھائی جائے گی
راہ میں ہیں لوگ تیری گھات میں میٹھے ہوئے
اسطرح مت گھوم یہ خوش و چرا لے جائے گی
اپنی جانب سے مجھے چھونا لپٹنا کچھ نہیں
خود چھلکے گی ڈال کوئی تو جھکا لی جائے گی
بے چھوٹتے ہی گر رہے ہیں سر ریزے پھول کے
یونہی بے مقصد شفق مٹی میں لائی جائے گی
اور بہت سے دوسری غزلوں کی طرح یہاں بھی محیط یا تنہائی کا احسا س اور اس کی وجہ سے اندوہ گینی غزل کی پوری ہئیت پر صاف طور سے نمایاں ہے۔ قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ مقطع سے پہلے کا شعر‘ جو روایتی انداز کا ہے‘ ہماری توجہ کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے‘ اور وہ روایت بھی ہے جرات ایسے شاعر کی‘ جس کی شاعری بالعموم جسم کی شاعری ہے‘ اور وہ شعر یہ ہے:
جم گئی دھول زمانے کی دلوں پر ایسے
جس طرح چہرے نگاہوں اتر جاتے ہیں
کاغذی پھول ہری شاخ شجر پر دیکھا
اک یہی خواب شب و روز برابر دیکھا
ہم بھرے شہر میں اسطرح گزر کرتے ہیں
جس طرح لوگ سٹی بس میں سفر کرتے ہیں
گھنے جنگل میں کوئی رات گزارے جیسے
گھر کے لوگوں میں ہم اسطرح بسر کرتے ہیں
شرما رہا تھا وہ بھی مجھے بھی تھا پیش و پس
اچھا ہوا کہ وقت پہ بجلی چلی گئی!
سمجھو تہ کر لیا ہے ہر اک شخص نے یہاں
اب گفت گو سے لوگوں کی ترشی چلی تھی
جتنے سنہرے پھل تھے ہر اک گھر میں بٹ گئے
پامال کر کے پیروں کو آندھی چلی گئی!
اور مقطع میں یہ رویہ اور انداز زیادہ واضح اور ناقابل تردید بن گیا ہے:
سرخی نہیں پھولوں کی تو زخموں کی شفق ہے
دامانِ طلب ہم کبھی سادہ نہیں رکھتے
لیکن یادوں کی باز آفرینی عبث نہیں‘ نہ یہ گردشِ شام و سحر کو ٹھیرا دینے کے مترادف ہے‘ بلکہ یہ تسلسلِحیات میں یقین کی علامت ہے اور اس میں شکستگی کے احساس کے بجائے دلدہی اور زندگی کے کاروبار کو نئے سرے سے منضبط کرنے کا جواز اور موقع نکلتا ہے۔ یاد میں خواب بھی ہیں اور عزمِ سفر پر نکلنے کے لیے نئے سرے سے آمادہ بھی کرتی ہیں‘ ایک
غزل جس کا مطلع ہے:
آنکھوں کے واسطے کوئی منظر بھی چاہئے
کچھ روشنی مکان کے باہر بھی چاہئے
آنکھوں میں خواب، خواب میں منظر بھی چاہئے
اس خوشنمار علاقے میں اک گھر بھی چاہئے
یہ دشت بے پناہ یہ کرنوں کی برچھیاں
لمبے سفر میں سایوں کا شکر بھی چاہئے
اس رہ گزر میں پھولوں کے سائے تو کم نہیں
لیکن کہیں کہیں کوئی پتھر بھی چاہئے
دونوں کا میل ہو تو مزہ آئے رات کا
خوشیوں کے گھر میں درد کا بستر بھی چاہئے
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ فاروق شفق کی شاعری میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو ایک کہنہ مشق شاعر کی شاعری میں ہوتے ہیں۔سر زمین بنگال کے لئے فاروق شفق ادبی دنیا میں ایک مین ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔