(میاں محمد یوسف)
قران مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کو پسند کرتے ہیں اس کو دین اسلام کی سمجھ عطا کرتے ہیں روز اول سے ہی اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو پسند کیا تو دین اسلام کی ذمہ داری بھی انہیں ہی عطا کی تمام پیغمبروں کی زندگیاں اس بات کی دلیل ہیں انبیاء علیہم السلام کے بعد دین اسلام کی اشاعت کے لئےانبیا علہیم اسلام نے سنت اللہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے صحابہ کو یہ اہم اور مقدس منصب سونپا نبی آخر زماں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مشن کے لئے اپنے رفقا یعنی حضرات صحابہ کرام کو پسند فرمایا یہ جہاں انبیا علیہم السلام کی سنت ہے وہاں حضرات صحابہ کی سنت ہے اس جماعت نے نبی کریم صلی الله عليه وسلم سے دین سیکھ کر اپنے سینوں میں محفوظ کیا اور پھر پوری دنیا میں پھیلایا بلکہ صحابہ کرام نے دین اسلام کو پوری دنیا میں پہچانے کا حق ادا کیا اگر آپ مشاہدہ کریں تو پوری دنیا میں صحابہ کرام کی قبریں موجود ہیں دنیا کے کسی کونے میں بسنے والا مسلمان مدینہ جانے کی حسرت کرتا ہے اور صحابہ کرام نے مدینہ صرف دین اسلام کی اشاعت کی خاطر چھوڑا اس سے دین اسلام کی اشاعت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا مقدس مشن ہے جس کی خاطر صحابہ کرام نے اپنے محبوب کا محبوب وطن چھوڑا اور اس اہم مشن کے لئے کوئی عام انسان منتخب ہو ہی نہیں سکتا جوہر کی قدر جوہری ہی جانتا ہے اور اس کے لئے ایک مثال عرض کرتا چلوں کہ والدین کو اولاد محبوب ہوتی ہے لیکن کوئی قیمتی چیز وہ بچوں کے ہاتھ میں اس لئے نہیں دیتے کہ یہ ناسمجھ ہیں ضائع کر دیں گے
اور باپ اپنی وصیت یا کوئی بھی قیمتی چیز اپنے سب سے سمجھدار بیٹے کو دیتا ہے اللہ تعالیٰ بھی دین اسلام کے معاملے میں اتنا حساس ہے کہ اس نے یہ ذمہ داری منتخب کردہ برگزیده بندوں کو ہی عطا کی جب تک یہ منصب ایسی ہستیوں کے ہاتھ میں رہا تو اس کی اشاعت وترویج کا حق ادا ہوتا رہا جب سے یہ منصب ٹی وی اینکر اور فلمی ایکٹروں کے ہاتھ میں آیا تو بجائے اسلام کے پھیلنے کے خرافات بڑھنے لگیں جس کا کام اُسی کو ساجھے کے مصداق اس منصب کے اہل صرف علما اور صوفیا ہی ہیں صحابہ کرام کے بعد اس منصب کے لئے اللہ تعالیٰ نے برصغیر میں امت میں سب سے افضل ان دو طبقات کو منتخب کیا یعنی علمائے کرام اور اولیائے عظام جہاں اللہ تعالیٰ نے علما کرام کو چُنا وہیں اور بڑے بڑے علماء کرام کی اسلامی اشاعت اور معروفات سے اسلامی تاریخ مزین ہے ہے اسی طرح اولیائے کرام کو بھی منتخب کیا اور تمام اولیاءاللہ کی تاریخ دیکھیں ان کی زندگی معروفات اسلام کی اشاعت سے لبریز ہے اور اسلامی تاریخ ان کے واقعات سے مزین ہے ریاست جموں وکشمیر میں اس مشن کے لئے اللہ تعالیٰ نے وانگت لار شریف کو یہ شرف عطا کیا شاعر لکھتا ہے کہ
یارِ من تجھ سا کوئی یار زمانے میں نہیں
تیرے ہر انگ سے خوشبوئے وفا پھوٹتی ہے
اے جگر تاب جگر پاش نگاہیں تو ہٹا
میرے سینے میں محبت کی وبا پھوٹتی ہے
حضرت بابا جی صاحب لاروی اور ان کی اولاد نے فی زمانہ اس منصب کا حق ادا کیا اور کر رہے ہیں یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ یہ بھی خاندان گنھیلہ کا فیض ہے اس کی کڑیاں جد امجد مجدد اولیا حضرت میاں جمال الدین ولی گنھیلوی سے جا کر ملتی ہیں بلاشبہ خاندان گھنیلہ کا فیض ہر جگہ نمایاں ہے حضرت میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادے میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ ریاست جموں وکشمیر کی ایک ایسی شخصیت کہ جو سیاسی سماجی علمی ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک اس خاندان نے قوم کی علمی سیاسی رہنمائی کے علاوہ ادبی میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش علاقہ وانگت لارکے پہلناڑ گاؤں میں جی صاحب کے وصال کے چار سال قبل21 اکتوبر 1922 میں ں ہوئی اور ان کا بچپن حضرت جی صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی شفقت میں گزرا بنیادی تعلیم وانگت سے حاصل کی پھر دربار میں موجود اساتذہ کے علاوہ گھر کے علمی ادبی ماحول سے بہت فیض حاصل کیا نوجوانی کے دور سے ہی اپنے قبیلے اور علاقے کے سماجی معاملات میں دلچسپی رکھتے تھے1965 میں حج کے فریضے کے بعد جب حضرت میاں نظام الدین لاروی نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تو سیاسی ذمہ داری میاں بشیر احمد صاحب کے ذمہ کر دی کر دی حضرت میاں بشیر لاروی 1967 سے 1986تک ریاست میں اسمبلی کے ممبر بھی رہے اور ایک عرصہ تک ریاستی وزیر کے طور وی ذمہ داری نبھائی 1972میں حضرت میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد میاں بشیر صاحب گدی نشین ہو گئے اسی نسبت سے ان کے مریدین کی ایک بڑی تعداد ریاست اور ملک سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے1986 کے بعد سیاسی ذمہ داری اپنے سپوت ریاستی وزیر میاں الطاف احمد صاحب کو سونپ کر پوری طرح روحانی علمی ادبی کاموں میں مصروف ہو گئے لار شریف کے دربار میں ہونے والی علمی ادبی مجلسوں کی تاثیر بچپن سے ہی ان کے دل پراثر انداز تھی جہاں کئی بلند پایہ پنجابی گوجری شاعروں کی محفلیں سجتی تھیں اس طرح انھیں بچپن سے ہی کئی شاعروں کے شعر زبانی یاد ہو گئے تھے جو آپ اکثر مجلسوں میں سناتے تھے گزشتہ رات یہ عظیم ہستی اس دنیا سے پردہ فرما گئی ان کی نماز جنازہ 15 اگست 2021 بروز اتوار شام چار بجے وانگت لار شریف میں ادا کی گئی بلاشبہ ایک عظیم شخصیت جن کمی کا احساس تاقیامت دامن گیر رہے گا اور ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں بقول شاعر
میں قافلوں کو دکھا گیا ہوں نشان منزل
میں راستوں کے سراب لے کر چلا گیا ہوں
انہیں کہو کہ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملوں گا
میں گرد راہ کے نقاب لے کر چلا گیا ہوں
اور علامت قیامت میں سے ہے کہ دنیا میں سے اللہ تعالیٰ قیامت آنے سے پہلے نیک لوگوں کو اٹھا لیں گے اگر ہم جائزہ لیں تو گزشتہ ایک سال میں ایسی بے شمار نیک شخصیات ہم سے جُدا ہو گئیں اللہ تعالیٰ میاں بشیر لاروی صاحب کی مغفرت فرمائے پوری قوم اور پوری دنیا میں ان کے متعلقین سوگوار ہیں اور یہ خلا کبھی پوار نہیں ہو گا الله تعالیٰ ان کے خاندان سمیت سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور میاں الطاف صاحب کو اللہ تعالیٰ لمبی عمر عطا فرمائے تاکہ یہ دین اسلام کا سلسلہ پھیلتا ہی رہےکیونکہ جب تک دین پھیلتا رہے گا قیامت پربا نہیں ہوگی