*
تحریر- ریاض بڈھانہ
چودھری قادر بخش نے ضلع بڈگام کے علاقہ برنوار میں سال 1921 میں جنم لیا اور1994 میں وفات پاگیے 73 سال کی عمر میں اُنہوں نے گجر بکروال طبقےکو بہت کچھ دیا اور ھمیشہ اس طبقے کی فلاح و بہبودی کیلے کام کیا مرحوم میں لیڈرانا صلاحیت تھی اُنہوں نے بہت کم وقت میں جو مقام حاصل کیا وہ قابلِ تعریف ھے اُنہوں نے نہ صرف ضلع بڈگام کی سرزمین پر اپنا نام روشن کیا بلکہ پورے جموں کشمیر میں چودھری قادر بخش کے نام کا ایک اپنا مقام تھا اُنہوں نے جہاں اس پیچھڑے طبقے کی آواز بلند کی وہی سماج کو سدھارنے کیلے بھی اپنا مثبت کردار ادا کیا ‘ بلکہ مذہب پرستی کا مقصد بھی یہی ہے کہ کوئی بھی انسان دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے نہ صرف خود خوشحال اور بحال رہے‘ بلکہ دنیا میں بسنے والے انسانوں کو بھی خوشحال اور بحال رکھنے کی کوشش کرے۔ اس مرحلہ میں دعویدار تو بے شمار مل جاتے ہیں‘ لیکن عملی طور پر اقدامات کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ سے ہی کم رہی ہے‘ کیونکہ انسان ہمیشہ خود کو صاف ستھرا اور دوسروں کو بے بس اور مجبور سمجھنے کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ ایسے طریقوں سے بھی خدا کی ذات ناخوش ہوتی ہے۔ لیکن انسان کی اپنی سوچ اور اپنے عمل کرنے کے طریقوں کو دنیا کی کوئی بھی طاقت روک نہیں سکتی۔ حتیٰ کہ مذہب اور عقائد کے علاوہ اخلاق و تہذیب کے شائستہ انداز بھی انسان کی کج روی کو دور نہیں کرسکتے۔ خدابزرگ و برتر نے ہرقوم‘ ہر ملت اور ہر فرقے میں ہمہ اقسام کے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘ جو اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہ کر دوسروں کی خدمت گزاری کے دعویدار ہوتے ہیں‘ لیکن بندوں کی حقیقی خدمت کرنے والوں کی تعداد میں ہمیشہ کمی واقع ہوتی رہی ہے۔ اس پس منظر میں اگر گجر بکروال طبقے کے کلچر و تہزیب اور مذہبی رکھ رکھاؤ کو ساتھ لے کر چلنے والی کسی شخصیت کا نام لیا جائے‘ تو بلاشبہ مرحوم چودھری قادر بخش کی شخصیت کو یہ اعزاز دیا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ذات کو خدا کی خوشنودی کے لئے مصروف رکھتے تھے‘ بلکہ خدا کے بندوں کو بھی خوشی سے وابستہ کرنے کی تمام تدابیر اختیار کرتے رہتے تھے۔ مرحوم اگرچہ اُتنا زیادہ تعلیم یافتہ نیہں تھا تاھم اُن میں لیڈرانہ صلاحیت ھونے کے ساتھ ساتھ اور بھی مزید خوبیاں موجود تھی ۔
اُنہوں نے ایک ایسے دور میں گجر بکروال طبقے کی تعمیر و ترقی کیلے کام کیا جب اس طبقے کے لوگوں میں تعلیم کی کمی تھی اور ان کے حق کی آواز اُٹھانے والا کوئی نیہں تھا
دیکھا جائے تو انسان کی زندگی چند پل کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے بعد مادی وجود خاک میں مل جانا ہے۔ پیچھے رہ جاتی ہے تو صرف گزاری ہوئی زندگی یعنی طرز حیات۔۔۔ یہی وہ طرز حیات ہے جو طے کرتا ہے کہ آپ کے بعد لوگ آپ کو کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اچھے اخلاق اور اعلی میعار کے ساتھ ایک بہترین طرز حیات پر مبنی زندگی گزار لی تو یقین کیجیے اس دنیا سے جا کر بھی زندہ رہیں گے۔ کیونکہ وہ تمام اشخاص جن سے آپ کا کبھی نا کبھی واسطہ رہا ہو گا وہ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔ اور یہی الفاظ آپ کا سرمایہ حیات ہیں۔
جانا تو ایک نا ایک دن ہے ہی۔۔۔ تو کیوں نا ایسی زندگی گزاری جائے جو دوسروں کے لیے مثال بن جائے۔
دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرز حیات رکھتی ہیں۔ جن کا رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق و تمیز۔۔۔ الغرض شخصیت کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے۔
مرحوم چودھری قادر بخش ایسی ہی چنیدہ شخصیات میں سے ایک تھے۔انہوں نے چمنستانِ حیات کو اپنی دیدہ وری سے منور کیے رکھا۔ ان کی شخصیت میں کوئی خام پہلو نہیں تھا۔اور یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ شخص جس نے کچھ وقت، خواہ چند لمحے ہی مرحوم چودھری قادر بخش کی محفل میں گزارے ہوں ان کی تعریف مجھے سے بہتر بیاں کرسکتا ھے لوگ دنیا سے چلے جاتے ھیں لیکن اُن کے کارنامے ھمیشہ ھمیشہ کیلے اُنہں زندہ رکھتے ھیں ۔