ولادت کے سلسلہ نقشبندیہ، مجددیہ اور نظامیہ کے کشمیر میں خلیفہ اورعظیم روحانی وسیاسی شخصیت میاں بشیر احمد لارویؒجنہیں آج دُنیا فانی سے گذرے ایک برس ہوچکا ہے، جس پر اُن کے چاہنے والے لاکھوں یاد کر رہے ہیں۔ وانگت لار میں دُعائیہ مجلس بھی منعقد ہورہی ہے۔ میاں بشیر احمد لاروی ؒکی 98سالہ زندگی کا ہرپہلو اتنا خوبصورت ہے جس پر مکمل کتاب بھی تحریر ہوتو کم ہے۔ گوجر اور بکروال قبائل کی سیاسی، سماجی وتعلیمی ترقی میں ان کا رول ناقابل ِ فراموش رہاہے۔ اسی لیے انہیں گوجر اور بکروال قبائل کا سردار کہاجاتا تھا اور جرگہ کے چیف جسٹس تھے یعنی کہ قبیلہ کے عدالتی نظام (جوڈیشل سسٹم)کے سپریم، جومعاملہ قبیلہ کے اند رکسی بھی سطح پر حل نہیں ہوتا، وہ ان کاتصفیہ ان کے دربار میں ہوتاتھا۔ اسی لئے بعض سرکردہ دانشوروں، مفکرین، محققین، ادبی وعلمی شخصیات نے اُن کی وفات پر یہ کہا ہے کہ قبیلہ سرپرست اعلیٰ سے محروم ہوگیا۔ وہ واحد ایسی شخصیت ہیں جن کو اپنے قبیلہ میں سب سے زیادہ عزت، احترام ملا اور جن کی شخصیت کا بلا لحاظ مسلک ہر کوئی معترف ہے۔
سرحدی اضلاع پونچھ اور راجوری جنہیں عرف ِ عام میں خطہ پیر پنجال کہاجاتا ہے سے میاں بشیر احمد لاروی ؒکو خاص لگاو تھا جس کی ایک طویل تاریخ بھی ہے۔ سرنکوٹ کے گاوں ’لسانہ ‘جس کو اسمبلی حلقہ سرنکوٹ کی سیاسی راجدھانی بھی کہاجاتاہے، میں بھی وہ کئی مرتبہ آئے تھے جہاں سے راقم کا بھی تعلق ہے۔ لارشریف کا لسانہ سے گہرا لگاو اور رشتہ ہے۔ میاں نظام الدین لاروی ؒ اور لسانہ کے چوہدری غلام حسین لسانوی کے درمیان ذہنی وقلبی رفاقت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور دینی معاملات میں بھی خیالات کی یکسانیت تھی۔ گوجر اینڈ بکروال طبقوں کی فلاح وبہبودی کے لیے گوجر جاٹ کانفرنس کی بنیاد دونوں نے ساتھ ساتھ مل کر ڈالی تھی۔ بعد ازاں یہ تعلق رشتوں میں بھی بدل گیا۔ چوہدری غلام حسین لسانوی کی تین بیٹیوں میں سے ایک بیٹی محترمہ غلام مریم کی شادی میاں بشیر احمد لارویؒ کے ساتھ 1942میں طے پائی۔ بعد ازاں غلام حسین لسانوی کے اکلوتے فرزند چوہدری محمد اسلم سابقہ رکن اسمبلی سرنکوٹ کی شادی میاں بشیر احمد لاروی ؒ کی ہمشیرہ محترمہ شریفہ بیگم سے ہوئی۔ علاوہ ازیں میاں بشیر صاحب کی دو بیٹیوں کی بھی شادی لسانہ گاوں میں ہوئی ہے، جن میں سابقہ کابینہ وزیر چوہدری عبدالغنی کی اہلیہ زرینہ جی شامل ہیں ، چوہدری عبدالرشید لسانوی کے فرزند ماسٹر مشتاق جوکہ اِس وقت پنچایت اپر لسانہ کے سرپنچ ہیں، کی اہلیہ محترمہ شہناز اختر تھیں، جوکہ سال 2011 کو جموں میں ایک سڑک حادثے کے دوران اللہ کو پیار ی ہوگئی تھیں جس کی نماز جنازہ میاں بشیر صاحب نے ہی ادا کی تھی۔ مینڈھر میں ضلع ترقیاتی کونسل ممبر باجی میاں فاروق کی والدہ بھی میاں بشیر احمد لاروی ؒ کی ہمشیرہ ہیں۔ بابا جی صاحب خطہ پیر پنجال کے جب بھی دورکرتے تو لسانہ ضرور آتے۔ سال 2016 کو میرے ہم جماعتی ایڈووکیٹ شوکت علی جوکہ بابا جی صاحب کے نواسے کی شادی میں شامل ہوئے تھے اور برات کے ساتھ راجور ی آئے تھے۔ یہ غالباً ان کا آخری دورہ پیر پنجال تھا۔
نومبر 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے پرجا سبھا کو تحلیل کر کے سرنو انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ اُس وقت جموں وکشمیر کی پرجا سبھا کی 78 نشستیں ہوا کرتی تھیں جن میں سے 40 پر انتخابات ہوتے تھے اور 35 پر ممبران نامزد کئے جاتے تھے ۔ نامزد ممبران میں دانشور، برگزیدہ شخصیات، پسماندہ طبقہ جات اور اقلیتیوں پر مشتمل تھے جنہیں کسی خاص شعبہ میں اعلیٰ کارکردگی کو مد نظر رکھ کر نامزد کیاجاتا تھا۔ بابانگری دربار عالیہ کے سجادہ نشین حضر ت میاں نظام الدین ؒ کو پرجا سبھا کے لئے اُمیدوار نامزد کیاگیا۔3جنوری 1947کو انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی اسمبلی حلقہ مینڈھر جس میں موجودہ سرنکوٹ کا بھی علاقہ تھا ، میں پرجا سبھا کے لئے چوہدری غلام حسین لسانوی نے گوجر جاٹ کانفرنس کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا جبکہ اُن کے مد مقابل چنڈک سے سردار یار محمد خان بار ایٹ لاءمسلم کانفرنس کے رہنما تھے دونوں کے درمیان سخت مقابلہ آرائی ہوئی اور سردار یار محمد خان یہ چناو جیت گئے لیکن چوہدری غلام حسین لسانوی نے انتخابات کو چیلنج کر تے ہوئے رِٹ دائر کر دی کہ اِن میں دھاندلیاں ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے پونچھ کے اندر برادریوں میں تلخی بڑھنے لگی، جوں جوں عدالت میں فیصلے کی تاریخ نزدیک آرہی تھی لڑائی جھگڑے کا حدشہ بڑھ رہاتھا ، چنانچہ میاں بشیر احمد لاروی براستہ اوڑی حاجی پیر پونچھ تشریف لے گئے ۔ فیصلہ میں وزیر بھیم سین نے چوہدری غلام حسین لسانوی کی اپیل منظور کرتے ہوئے سردار یار محمد کے چناو کو کر د کردیا ۔ لوگوں میں غم وغصے کو ٹھنڈا کر کے آپس میں بہتر تعلقات کرنے میں میاں بشیر احمد لاروی ؒ نے اہم رول نبھایا۔
1947کا سال جموں وکشمیر کی عوام کے لئے خون آشوب ثابت ہوا ، ہزاروں کنبے اُجڑے، کئی یتیم اور بیوا ہ ہوئے۔ راجوری پونچھ میں پیداشدہ اس صورتحال کے بیچ شیخ محمد عبداللہ جنہیں اُس وقت جموں وکشمیر کا چیف ایگزیکٹیو بنایاگیاتھا نے راجوری پونچھ کی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے سردار بدھ سنگھ اور محی الدین ہمدانی کو روانہ کیا لیکن فوج نے ان کو نوشہرہ سے آگے نہ جانے دیا اور وہیں روک لیا۔ پھر یہ طے پایاکہ درگاہ لار شریف کے سجادہ نشین کی مدد کار آمدثابت ہوسکتی ہے اور پھر ہجرت کا عمل بھی رک سکتا ہے کیونکہ راجوری پونچھ کے لوگوں کی کثیر تعداد کو اِس دربار سے عقیدت ہے۔ چنانچہ شیخ محمد عبداللہ کے کہنے پر میاں بشیر احمد بازآبادکاری کے لئے براستہ درہ پیر پنجال پونچھ میں داخل ہوئے اور لسانہ پہنچے اور وہاں لسانہ سے چوہدری غلام حسین لسانوی ہجرت کر کے حد متارکہ پار کر چکے تھے اور ان کے بنگلے میں انڈین آرمی نے اپنا ہیڈکوارٹر قائم کیاتھا۔ میاں بشیر کی آمد کا سن کر لوگ جو پہاڑوں یا جنگلوں میں چھپ گئے تھے واپس آنے لگے۔ اس طرح بازآبادکاری میں اہم رول ادا کیا۔چوہدری غلام حسین لسانوی جنہیں ’گجر گاندھی‘کے خطاب سے نوازاگیاتھا، جوکہ 1947میں سرحد پار جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ میاں بشیر کی اہلیہ غلام مریم جوکہ چوہدری غلام لسانوی کی صاحبزادی ہیں، والد کی جدائی سے کافی رنجیدہ تھیں ، اُن کی واپسی کے لئے میاں نظام الدین ؒ نے زبردست رول ادا کیا اور 1953کو ریاستی اسمبلی میں چوہدری غلام حسین لسانوی ودیگر مقتدر خاندانوں کی واپسی کے لئے زور دار مانگ کی جس پر وزیر اعظم بخشی غلام محمد سخت آگ بگولہ بھی ہوگئے اور احتجاجاً میاں نظام الدین نے اسمبلی سے واک آوٹ کیا۔ بعد ازان ا نہوں نے مرکزی حکومت سے معاملہ اُٹھانے کا وعدہ کیا، اس طرح 1954 کو طے شدہ وقت پر چوہدری لسانہ کیرنی پونچھ بارڈر سے داخل ہونے پر آمادہ ہوئے جن کا میاں بشیر احمد نے بانڈی چیچیاں، ڈنلہ میں استقبال کیا اور قافلہ کی صورت میں اُنہیں لسانہ تک لایاگیا، غلام حسین لسانوی کی گرفتاری بھی ہوئی لیکن بعد ازاں بخشی غلام محمد کی ہدایت پر اُنہیں رہا کر دیاگیا۔
1965میں جب حالات خراب ہوئے تو راجوری پونچھ کی عوام کو بھی بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔ در اندازوں کے ساتھ عام لوگ بھی نشانہ بنائے اور ہزاروں مارے گئے۔ ہزاروں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا اور کچھ جان بچانے کے لئے سرحد کے اُس پرچلے گئے۔ افراتفری کے اس ماحول میں میاں بشیر احمد لاروی ؒ اپنے والد محترم کی ہدایت ’گڈ وِ ل مشن‘جذبہ خیر سگالی مشن پر پونچھ راجوری روانہ ہوئے۔
دسمبر 1965اورجنوری 1966 کو سرنکوٹ، مینڈھر، پونچھ، منجاکوٹ، تھنہ منڈی، کالاکوٹ، بدھل وغیرہ کا تفصیلی دورہ کر کے عوام کے ساتھ رابطے قائم کئے۔ مذہبی مجالس کا اہتمام کیا قبائلی جرگے منعقد کئے اور امن عمل کے اقدامات کئے۔ اُن کی کاوشوں سے ہزاروں کنبہ جات وطن واپس لوٹے اور اپنے گھروں کو آباد ہوئے۔ اسی طرح 1971کی جنگ کے دوران بھی میاں بشیر احمد پونچھ راجوری کی عوام کے بیچ رہے۔ تشدد کی وجہ سے اس مرتبہ بھی سینکروں لوگ مارے گئے۔ہزاروں گھر نذر آتش ہوئے اور تقریباً 25 ہزار خاندان ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اُس وقت بھی اِس عمل کو میاں بشیر احمد نے روکنے میں رول ادا کیا۔ میاں بشیر جوکہ اُس وقت ریاستی وزیر بھی تھے، کو وزیر اعلیٰ غلام محمد صادق نے راجوری پونچھ کا انچارج بناکر بھیجا تاکہ حالات کو قابو میں رکھاجاسکے اور عوام وانتظامیہ کے درمیان بہتر تال میل بنارہے۔ انہوں نے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا حوصلہ بنائے رکھا جس وجہ سے انہیں نہ جنگلوں میں بھاگنے کی ضرورت محسوس ہوئی نہ کسی کا گھر جلا ، نہ کسی کو چوٹ آئی۔ میاں بشیر احمد پونچھ راجوری میں ہی تھے کہ غلام محمد صادق کا انتقال ہوگیا تو سید میر قاسم نے وزارت کا حلف لیا، میاں بشیر اِس قدر مصروف تھے کہ نئی وزیارت میں حلف بھی نہ لے سکے جن کے لئے علیحدہ بعد میں تقریب منعقد ہوئی۔ میاں بشیر احمد لاروی ؒ کے پونچھ راجوری میں کئی حلفاءبھی ہیں جن میں پیر نثار حسین شاہ (سرنکوٹ)،جنید احمد بھٹی (کھوڑی والی درہال راجوری)، سرفراز احمد شاہ دوداسن بالا، اسلم پرویزمنجاکوٹ، محمد اسلم ککوڑہ منجاکوٹ، حاجی الف دین گوہلد مینڈھر، حاجی کالا ریحان راجوری، مولوی دل محمد فتح پور راجوری جوکہ اب وفات پاچکے ہیں، سائین عبدالطیف مرگاں راجوری، مولانا نثار حسین کھوڑی والی درہال، حاجی بدر الدین سانگلہ سرنکوٹ قابل ِ ذکر ہیں۔ میاں بشیر احمد کاپونچھ راجوری سے لگاو کی وجہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے یہاں کے لوگوں کی عقیدت تھی جوکہ دور دور سے پیدل سفر کر کے اور پیر پنجال کے پہاڑی راستوں سے گذر کر لار شریف پہنچتے تھے۔ 1903میں سرنکوٹ کے ہاڑی مڑہوٹ میں میاں نظام الدین ؒ رہے۔1905میں لسانہ میں چوہدری غلام حسین لسانوی کی رہائش گاہ پر عظیم الشان مجلس منعقد ہوئی جس میں چوہدری بلند خان ہاڑی نے لنگر کے لئے زمین قبول کرنے کی درخواست کی، اور گاوں موہڑہ بچھائی میں تقریباً 200 کنال زمین لنگر کے نام دی اور اُن کے رشتہ داروں نے پیر جموں شہید میں واقع بڑی بہک اور لونا والی میں 300 کنال زمین پیش کی ۔ چوہدری غلام حسین لسانوی نے لسانہ ، سنئی اور بیلہ میں واقعہ زمینوں کا بھی کچھ حصہ لیا تھا اور وہاں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاڑی مڑہوٹِ موہڑہ بچھائی کی سرزمین نے کئی شعراء، ادیب، دانشور، مفکر اور صوفی بزر گ پیدا کئے جن میں خدا بخش زار بھی قابل ذکر ہیں۔میاں بشیر احمد نے اپنا آخری الیکشن بھی راجوری کے درہال سے لڑا تھا۔اس خطہ سے دربار لار کو بڑی عقیدت ہے اور یہاں کے لوگ بھی اِس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔خطہ میں دینی تعلیمات کو بھی فروغ دینے میں رول ادا کیا۔
1947،1965اور1971 کے پر آشوب حالات میں مکمل ساتھ دیا، علاوہ ازیں جب بھی کبھی کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو فوری خطہ پیر پنجال کا رُخ کر کے اُس کو حل کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
نوٹ! مضمون نگار
ہائی کورٹ کے وکیل ہیں
7006541602