The Daily Urdu Newspaper of Jammu and Kashmir

فلسفہ شہادت سیدنا حسین رح

( تحریر : میاں محمد یوسف)

0

کہتے ہیں کہ تین چیزیں سوچ سمجھ کر اٹھاؤ قدم قسم اور قلم کیوں کہ اگر آپ کی یہ تینوں چیزیں مثبت سمت میں چلیں گی تو آپ کو بھی فائدہ ہو گا اور دوسروں کو بھی تو میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ جو لکھوں سچ لکھوں اپنا لکھوں تھوڑا لکھوں کسی کی نقل نہ کروں کیونکہ دل سے نکلے الفاظ اثر رکھتے ہیں اور میری تحریر پڑھ کر اگر کوئی ایک انسان بھی راہ راست پر آگیا تو ہو سکتا ہے کہ اسی بہانے میری نجات ہو جائے اور تو کوئی عمل میرے پاس ہے نہیں اس لئے توجہ سے پڑھیں اس میں آپ کو حقائق ملیں تو تسلیم کریں میری مثال یوں سمجھ لیجئے بقول شاعر

روایتوں کی صفیں توڑ کے آگے بڑھو
ورنہ جو آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے۔
ہمیں تو جگانا ہے صرف سونے والوں کو
جو در کھلا ہے وہاں ہم صدا نہیں دیں گے

اس کو دوسروں تک پہنچائیں
محرم الحرام کا مقدس مہینہ چل رہا ہے یہ مہینہ اسلامی تاریخ سے قبل بھی حرمت والا تھا نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے اس کی حرمت اس وجہ سے نہیں بیان کی کہ اس میں سیدنا حسین رضى الله کی شہادت ہوئی بلکہ اس وجہ سے کہ یہ ماہ سابقہ نبیوں کے دور میں بھی حرمت والا تھا لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے شہادت نوش کر کے اس ماہ کی حرمت میں مزید اضافہ کیا شہادت کو مومن تحفہ سمجھتا ہے کہ بندے کو اپنے مالک کے دربار میں سرخرو کر کے پہنچاتی ہے سیدنا عمر فاروق نے اسی لئے اللہ تعالیٰ سے شہادت مانگی تھی اور شہادت کامیابی ہے کامیابی پر افسوس نہیں کیا جاتا پھر نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو بذریعہ وحی بتایا گیا تھا کہ آپ کا نواسہ کربلا میں شہید ہوگا اس ضمن میں کچھ معتبر حوالے پیش ہیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں شہیدکر دیا جائے گااسی طرح ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ
آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر شہید کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہےحضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہےحسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے شہید ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے۔ ابو عبداللہ! حسین رضی اللہ عنہ صبر کرنا۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگاحضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے اگر یہ شہادت نقصان ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس سے بچنے کی ترغیب دیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اطلاع دی مگر اس سے روکا نہیں بلکہ صبر کا حکم دیا سیدنا حسین کو ان منافق کوفیوں نے ہزاروں خطوط لکھے تھے کہ قبلہ آپ آجائیں ہم آپ کے محب ہیں منافق کی تاریخ دیکھیں وہ محبت کے عنوان پر دھوکہ دے کا قبلہ کعبہ کہ کر نقصان دے گا جب سیدنا حسین مدینہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے سیدنا حسین کو مشورہ دیا کہ کوفیوں کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں یہ دھوکہ دینے والے ہیں آپ نہ جائیں اور پہلے کسی کو سفارتی مشن پر بھیجیں تاکہ حالات کا اندازہ لگایا جا سکے تو سیدنا مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا گیا جب آپ کوفہ پہنچے تو آپ کا بھرپور استقبال کیا گیا آپ کے ہاتھ پر کوفیوں نے بیعت کی سیدنا مسلم بن عقیل نے سیدنا حسین کو خط لکھا کہ امیر المؤمنین حالات ساز گار ہیں آپ تشریف لائیں تو سیدنا حسین اپنے اھل بیت اور متعلقین کے ساتھ کوفہ کی طرف چل نکلے راستے میں اطلاع ملی کہ مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا ہے تو پھر مشورہ کیا گیا تو مسلم بن عقیل کے ورثا کا موقف تھا کہ ہم قصاص لینے کوفہ جائیں گے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نہ جائیں لیکن آپ نے فرمایا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خون ہوں اور قافلہ کے ساتھ جاؤں گا جب یہ قافلہ کربلا پہنچا تو حالات یکسر بدل چکے تھے کوفہ میں گورنر کو تبدیل کر کے ابن زیاد کو گورنر مقرر کر دیا گیا تھا سیدنا حسین نے جب کوفیوں کی طرف دیکھا تو کوفی کہنے لگے مولا ہم آپ کا ساتھ دیتے مگر اب مجبوری ہے تاریخ کا مطالعہ کریں اگر مگر چونکہ چنانچہ یہ تاویلیں اسلامی لغت میں ہیں ہی نہیں ان کا سہارا صرف منافق لیتے ہیں اور سیدنا حسین رضى الله عنه نے ابن زیاد کی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور تین شرائط بتائیں یا مجھے یزید سے ملنے دیا جائے یا کسی بارڈر پر بھیج دیا جائے اور یا پھر واپس بھیج دیا جائے یہ تینوں شرائط نہ مانی گئیں تو پھر سیدنا حسین نے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے خاندان سمیت جان دے دی زرخرید مورخ یا پیشہ ور مُلا اس کی جو ڈاکومنٹری پیش کرتا ہے وہ سب داستان سرائی اور کاروبار ہے بیان ایسے کرتا ہے جیسے آنکھوں دیکھا حال ہو ایک طرف کہتا ہے کہ پانی بند تھا تو دوسری طرف حلیم کی دیگیں پک رہی ہیں تو پانی کے بغیر حلیم کیسے پک گیا ایک طرف خود بھی روتا ہے اور کربلا میں بھی آنسوؤں کا منظر پیش کرتا ہے تو دوسری جانب شہزادوں کی شادیاں ہو رہی ہیں مقتل گاہ میں شادیانے نہیں بجتے پھر کہتا ہے کہ حسین نے ننھے علی اصغر کے لئے پانی مانگا حالانکہ سیدنا حسین نے اگر ان سے مانگنا ہوتا تو میدان میں ذبح نہ ہوتے یہ سب مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں پھر کسی کی جدائی پر آنسو بہانا منع نہیں بلکہ شور واویلا کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ سیدنا حسین میدان کربلا میں کامیاب ہوئے تو ہم ماتم کیوں کریں ہمارے حسین قابل فخر ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا وہ قابل ماتم ہیں اور وہ ماتم میں ڈوبے ہوئے ہیں ہر سال دس محرم الحرام کو ان کا ریمانڈ ہوتا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا کچھ رفض زدہ سنی بھی محرم الحرام میں شادی یا خوشی منانے کو حرام سمجھتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں حالانکہ اس ماہ میں شادی کرنا افضل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اسلام میں ماتم منانا جائز ہوتا تو سیدنا حسین کی آل مناتی یہ جو آج ماتم مناتے ہیں یہ تو کوفیوں کی نسل ہے یہ منافق اپنے آپ کو حسینی ظاہر کر کے اپنے اجداد کے ظلم کی سیاحی دھونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس طرح ہم خوشی مناتے ہیں یہ تو عام حالات میں بھی جائز نہیں ہے ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو خوشی میں ناچے گائے اور غم میں سینہ چاک کرے گریبان پھاڑے وہ ہم میں سے نہیں ہمیں اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بتائے گئے اصولوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے اس واقعے سے ہمیں بے شمار اسباق ملتے ہیں اور ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ چاہے جان دینی پڑ جائے مگر باطل کی اطاعت قبول نہ کرو یہی سنت حسین ہے اور اس پر سیدنا حسین نے عمل کر کے نانا کے دین کو تقویت دی اور درس دیا کہ باطل کے سامنے سر جکہاؤ نہیں بلکہ کٹوا دو اور دوسرا سبق کہ جس کا ساتھ دو تو جی و جان سے دو ورنہ دھوکہ نہ کرو یزید کا بھی ساتھ اور حسین کا بھی یہ منافقت ہے یا یزید کے حامی بنو یا حسین کے ورنہ کوفیوں کی طرح قیامت تک چیختے رہو گے جو آپ کو بھی اپنا سمجھیں اور آپ کے دشمن کو بھی اپنا سمجھیں وہ منافق ہیں چہ جائے کہ ہزاروں تاویلیں اور دلائل دیتے رہیں دو رنگی مذہب اسلام میں ہے ہی نہیں یا اقرار یا پھر کُھل کر انکار کرو کسی بھی سطح پر اتحاد کے لئے منافقین کو اپنی صفوں میں سے نکالنا ہو گا ورنہ وہ کوفیوں کی طرح قبلہ کعبہ کہ کر آپ کو دھوکہ دے کر جدا کرتے رہیں گے ہمیشہ لوٹا محبت کے عنوان پر ہی جاتا ہے یہ منافقین کا حربہ ہوتا ہے کچھ لوگوں سے محبت کا اظہار کر کے آڑ لیکر یقین دلا کر وہ لوگوں کو لڑاتے ہیں اور نفرتیں پیدا کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تو محنتی اور مُخلص لوگ ہیں اللہ تعالیٰ ھدایت عطا فرمائے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.