جو لے کر تیرا امتحاں جا رہا ہے
خراماں خراماں کہاں جا رہا ہے
سرابوں کی بستی میں خود کو مٹا کر
لٹا کر کوئی کارواں جا رہا ہے
خدا آج ہی یاد آنا تھا تجھ کو
یہ تسبیح اٹھا کر کہاں جا رہا ہے
جہاں سے ہو تیری گذر سنگ تیرے
کرونا کا نام و نشاں جا رہا ہے
نہ آساں سمجھ اس کو مہلک بڑی ہے
وبا یہ لگے گی جہاں جا رہا ہے
کہاں عمر کو دیکھ کر موت آتی
کہیں بچہ ، بوڈھا، جواں جا رہا ہے
مکمل کیے بن فسانے کو تیرے
کہاں تیرا افسانہ خواں جا رہا ہے